Maktaba Wahhabi

116 - 190
قدر دُور ہے ، کہ تردید کا اہتمام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ، اور اس قدر خراب ہے ، کہ اس کی خرابی کو واضح کرنے کی بھی کوئی حاجت نہیں ۔ [1] واللہ تعالیٰ أعلم شاید اس موضوع کے اختتام سے پیشتر اس بارے میں علامہ غزالی کا ایک اقتباس پیش کرنا مناسب ہو۔ انہوں نے تحریر کیا ہے: ’’گمان کرنے والے نے یہ گمان کیا ہے ، کہ فضائل اعمال اور نافرمانیوں کے بارے میں شدت کی غرض سے جھوٹی حدیثیں جوڑنا درست ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس کام کے پس منظر میں نیت درست ہے۔ ان کا یہ گمان کلی طور پر غلط ہے ، کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔‘‘ [جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے، اس کو چاہیے، کہ اپنا ٹھکانہ[دوزخ کی ] آگ میں بنا لے۔] ایسا کام تو صرف مجبوری ہی کی صورت میں کیا جا سکتا ہے اور ایسی کوئی مجبوری نہیں ، کیوں کہ اس بارے میں سچ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہے ، کہ جھوٹ کی ضرورت ہی نہیں ۔ ثابت شدہ آیات و احادیث جھوٹی روایات سے بے نیاز کر دیتی ہیں ۔ پھر علامہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایک شبہ پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’کسی کہنے والے کا یہ کہنا، کہ ان [ثابت شدہ آیات و احادیث] کے بار بار سننے کی بنا پر ،ان کا اثر ختم ہو چکا ہے ، اور نئی باتوں کا اثر بہت زیادہ ہوتاہے۔‘‘ پھر خود ہی اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’یہ بے وقوفی ہے۔یہ کوئی ایسا سبب نہیں ، کہ اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی ممانعت کو توڑا جائے۔ اس سے تو ایسی باتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے ، جو شریعت کو بازیچہ اطفال بنا دیں گی۔ خیر کی یہ توقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کے شر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
Flag Counter