Maktaba Wahhabi

95 - 234
رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم(یعنی ثالث) بنا کر فیصلہ کیا۔ کسی مصلحت کی بنا پر کیا تھا، لیکن خوارج کھڑے ہو گئے، بگڑ گئے او ر بغاوت شروع کر دی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام تک اس تحکیم و فیصلہ سے مٹا دیا۔ مسلما نو ں کی عورتوں، بچوں کو اسیر بنا کر لے گئے۔ یہی لوگ تھے جن کے خلاف جہاد و جنگ، قتال او رلڑائی کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کیونکہ اُن کے پاس فاسد اور باطل دین تھا، جس سے نہ ان کی دنیا درست ہوتی تھی نہ آخرت۔ بسا اوقات ورع﴿انتہائی زیادہ عبادت﴾ اور جُبن و بُزدلی اور بخل میں اشتباہ﴿شبہ﴾ ہو جاتا ہے، کیونکہ ترکِ عمل دونوں میں پایا جاتا ہے۔ خشیت ِ الٰہی سے فسا د کو ترک کرنے اور بوجہ جبن وبزدلی اور بخل کے جہادِ مامور میں خرچ نہ کرنے میں اشتباہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: شَرُّ مَا فِی الْمَرْئِ شُحٌّ ھَا لِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ(قال الترمذی حدیث صحیح) آدمی میں بُری سے بُری بدی بخل اور حرص اور جبن(کم ہمتی) و بزدلی ہے۔ اسی طرح بسا اوقات انسان عمل ترک کردیتا ہے، اور گمان کرتا ہے، یا ظاہر کرتا ہے کہ یہ ورع و تقوٰی ہے حالانکہ یہ کبر و غرور اور اپنے آپ کو بلند درجہ پر لے جانے کا قصد ہو تا ہے۔ اور اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا جامع کامل، مکمل جملہ فرمایا ہے جو ترازو کا حکم رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ اعمال نیتوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں۔ عمل کے لیے نیت ایسی چیز ہے جیسی جسم کے لیے روح، اگر ایسا نہیں ہے تو ایک شخص اللہ کے سامنے سجدہ کرتا ہے، دوسرا شخص سورج اور چاند کے سامنے سجدہ کرتا ہے، کیا فرق ہے؟ دونوں اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتے ہیں، دونوں کی صور ت اور وضع ایک ہی ہے، غور کرو کہ اللہ کے سامنے پیشانی ٹیکنے والا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اقرب الخلق ہے، اور سورج و چاند کے سامنے ٹیکنے والا اللہ سے بعید سے بعید ہے، یہ نیت ہی کا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: وَتَوَا صَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَا صَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (سورۂ بلد:17) اور ایک دوسرے کو صبر کی ہدایت کرتے رہے اور نیز ایک دوسرے کو رحم کرنے کی ہدایت
Flag Counter