کرتے رہے۔ اور اثر میں ہے: اَفْضَلُ الْاِیْمَانِ السَّمَاحَۃُ وَالصَّبْرُ بہترین ایمان سماحت اور صبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کی نگرانی، رعایا پروری، ان کی سیاست بغیر جود و سخاوت کے جسے عطیات کہتے ہیں اور بلا تجدد و شجاعت، بہادری و دلیری کے ہو ہی نہیں سکتی، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ دین و دنیا کی اصلاح، فلاح و بہبود ان دو چیزوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، پس جو شخص ان دو چیزوں میں قائم اور مستقیم نہیں ہے اس سے امر و حکومت اور ولایت چھین لینی چاہیئے اور دوسرے کو دے دینی چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اللّٰه عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ(توبہ:39) اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے نکلو تو تم زمین پر ڈھیر ہوئے جاتے ہو، کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو، اگر یہ بات ہے تو یہ تمہاری سخت غلط فہمی ہے کیو نکہ آخرت کے فائدوں کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کے فائدے محض بے حقیقت ہیں۔ اگر تم بلائے جانے پر بھی اللہ کی راہ میں لڑنے کیلئے نہ نکلو گے تو اللہ تمہیں بڑا دردناک عذاب دیگا، اور تمہارے بدلے دوسرے لوگوں کو لا کھڑا کر ے گا، اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ |