یَفُوْقَانِ مَرْدَاسَ فِی الْمَجْمَع حصن اور حابس اجتماع میں مرد اس سے فو قیّت نہیں لے جاتے تھے۔ وَ مَا کُنْتُ دُوْنَ اَمْرَئٍ مِنْہُمَا وَ مَنْ یَخفِضُ الیَوْمَ لَا یُرْ فَعٍ ان دونوں میں میں کسی سے کم تھا؟ وہ پلّہ جو اٹھایا نہیں جاتا کس نے جھکا دیا؟ یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی سو اونٹ دے دیئے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے اور عبید، مرداس کے گھوڑے کا نام تھا۔ مؤلفۃالقلوب دو قسم کے ہیں، کافر اور مسلمان۔ کافر کی تألیف یہ ہے کہ اس سے فائدہ کی اُمیدیں وابستہ کی جائیں، کہ یہ اسلام لے آئیں گے، یا جو نقصان ان سے پہنچتا ہے وہ کم ہو جائے گا کہ دیئے بغیر یہ نقصان دُور نہیں ہوتا۔ مسلمان مؤلفۃ القلوب وہ ہیں جنہیں دینے سے فائدہ کی اُمیدیں وابستہ ہوں۔ مثلًا وہ مسلمان ہیں مال دیا جائے گا، پختہ اسلام سچے مسلمان بن جائیں گے، یا ان جیسے لوگ اسلام میں پختہ اور اچھے بن جائیں گے، یا دشمنوں کو ڈر اکر ان سے ما ل نکلوائیں گے۔ یا جن مسلمانوں کو نقصان اور ضرر پہنچ رہا ہے اس سے بچالیں گے، کہ دیئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ اس قسم کے عطیات گو بظاہر رئیسوں اور مالداروں کو دیئے جاتے ہیں، اور ضعیف اور کمزور چھوڑ دیئے جاتے ہیں جیسا کہ بادشاہوں کا دستور ہے، لیکن نیتیں مختلف ہوتی ہیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر دینے سے دینی مصلحت، اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود مقصود ہے تو یہ دینا اسی قبیل سے ہو گا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء دیا کرتے تھے، اور اگر اس دینے سے مقصود علو فی الارض کبر وغرور اور فسا د مقصود ہے تو یہ دینا اُسی قبیل سے ہو گا جیسا کہ فرعون اپنے لگے بندھے لوگوں کو دیا کرتا تھا۔ ان عطیات کو وہی لوگ بُرا سمجھتے ہیں جو فاسد دین رکھتے ہیں۔ اور بدنیت ہوتے ہیں جیسے ذی الخویصرہ کہ اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطیے کو بُرا سمجھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے حق میں جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا، اور بدعا کی۔ اور جیسا کہ اس کے گروہ خوارج نے امیر المؤمنین سیدنا علی |