Maktaba Wahhabi

84 - 234
اپنے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے اتنے اٹھائے کہ آپ کی بغل ہم نے دیکھی اور فرمایا: اے اللہ میں نے پہنچا دیا،اے اللہ میں نے پہنچا دیا۔ تین دفعہ آپ نے یہ فرمایا۔ یہی حکم ان والیان امر﴿بااختیار افسران و اعلیٰ سول و فوجی حکام﴾ کا ہے جو معاملات میں ہدایا اور تحفے لے کر کسی کی امداد و اعانت کریں مثلاً﴿ٹھیکہ جات﴾ بیع و شراء﴿خرید و فروخت﴾، مواجرۃ﴿سرکاری ملازمتیں اور نوکری﴾، مضاربت﴿پارٹنرشپ﴾، مساقات﴿نہروں و دریاؤں وغیرہ کا پانی کسانوں کو کھیتوں کے لیے دینا یا دلانا کہ کسی کی باری پہلے کر دی کسی کی بعد میں یا کسی کو پانی کم دیا اور کسی کو زیادہ﴾، مزارعۃ﴿زمین کی ٹھیکہ داری، بیج و کھاد کی فراہمی﴾ وغیرہ۔ اس قسم کے معاملات میں کسی قسم کا بھی ہدیہ اور تحفہ لے کر کام کریں، تو اس کا بھی یہی حکم ہے، اور اسی بنا پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بعض عمال﴿گورنر، افسران اور حکام﴾ سے کہ جن کے پاس مال بھی تھا، اور قرض بھی تھا، مگر خیانت کا الزام بھی نہیں تھا، آدھا آدھا کر دیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض عمال کے ساتھ ایسا سلوک اس لیے کیا کہ اُنہوں نے ولایت امر﴿بااختیار اور مجاز افسر و گورنر، ڈائریکٹر وغیرہ ہونے﴾ کی حیثیت سے تحفے تحائف لیے تھے۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو والی و عامل مقرر کیا تھا، اور یہ امر اس کا مقتضی بھی تھا۔ کیونکہ سیدنا عمرص امام عادل تھے، اور مال کی صحیح تقسیم انہی کا کام تھا۔ ﴿آج افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مساجد اور مدارس میںخوشامد اور چاپلوسی کی بیماری اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔ مساجد کی انتظامیہ تو اُس امام، خطیب، قاری، خادم اور مؤذن کو برداشت ہی نہیں کرتیں جو اُن کی خوشامد نہیں کرتے، ہاں میں ہاں نہیں ملاتے بلکہ اُلٹا ان کے طعنے اور القابات سے نوازا جاتا ہے﴾۔ جب امام اور رعایا دونوں میں تغیر آجائے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے مقدور کے مطابق اپنے فرض کو انجام دے، حرام کو چھوڑ دے، اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے مبا ح کی ہے اُسے حرام نہ کرے۔ کبھی لوگ والیان ملک﴿سول و فوجی حکام﴾ سے اس لیے ابتلاء و مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں کہ یہ ہدایا اور تحفے نہیں دیتے کہ ہدایا اور تحفے دے کر ان کے مظالم سے چھوٹیں۔ اور جو فرض والی امر﴿گورنر و افسر﴾ کا ہے، وہ چھوڑدیتا ہے، پھر بھی کف ظلم کے عوض ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا
Flag Counter