Maktaba Wahhabi

85 - 234
ان کے نزدیک محبوب ہے۔ اور باوجود اس کے کف ظلم کے عوض وہ ما ل لیتا ہے۔ اور اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کے لیے بیچتا ہے۔ اس کا تو فرض یہ تھا کہ حسب ِ قدرت و طاقت ظلم کو روکتا، اور لوگوں کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرتا۔ ان کی مصلحتوں کو ملحوظ رکھتا، سلطان﴿یعنی حاکمِ وقت﴾ تک ان کی حاجتیں اور ضرورتیں پہنچاتا، اور سلطان کو ان اُمور سے آگاہ و باخبر کر دیتا۔ ان کے مصالح سے بھی آگاہ کر دیتا، اور ان کو مفاسد سے بچاتا، اور اس بارے میں مختلف طریقے لطیف و غیر لطیف اختیار کرتا، جس طرح کہ کاتب، منشی وغیرہ اپنی اغراض کے لیے کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث ہند بن ابی ھالہ رضی اللہ عنہا میں ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اَبْلِغُوْنِیْ حَاجَۃً مَنْ لَا یَسْتَطِیْعُ اِ بْلَاغًھَا فَاِنَّہٗ مَنْ اَبْلَغَ ذَا السُّلْطَانِ حَاجَۃَ مَنْ لَا یَسْتَطِیْعُ اِبْلَاغَھَا ثَبَّتَ اللّٰه قَدَمَیْہِ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تُزِلُّ الْاَقُدَامُ ان لوگوں کو جو اپنی حاجتیں اور ضرورتیں مجھ تک نہیں پہنچا سکتے، مجھ تک پہنچا دو کیونکہ جو شخص صاحب سلطنت تک ایسے لوگوں کی حاجتیں پہنچائیں جو خود نہیں پہنچا سکے تو اللہ تعالیٰ پل صراط پر اُسے ثابت قدم رکھے گا کہ جس دن بڑوں بڑوں کے قدم لڑکھڑا جائیں گے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے، اور سنن ابی داؤد میں ابی امامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ شَفَعَ لِاَحَدٍ شَفَاعَۃً فَاھْدٰی لَہٗ عَلَیْھَا ھَدْیَۃً فَیُقْبَلُھَا فَقَدْ اَتٰی بَابًا عَظِیْمًا مِنْ اَبْوَابِ الرِّبَا جس نے اپنے کسی بھائی کی سفارش کی، اور اس کے بدلہ اس نے ہدیہ؍تحفہ بھیجا، اور اس نے اسے قبول کر لیا، تو وہ سود کے بڑے دروازے میں داخل ہو گا۔ اور ابراہیم حربی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ کسی آدمی نے کسی سے اپنی ضرورت پوری کرنے کو کہا، اور اس نے اس کی ضرورت پور ی کر دی، اور دوسرے نے ہدیہ بھیجا اور اس نے قبول کر لیا تو یہ حرام ہے۔ جناب مسروق رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے ابن زیاد سے کسی مظلمہ کے متعلق بات چیت کی،
Flag Counter