Maktaba Wahhabi

83 - 234
وہ مال جو والیان اموال﴿کسٹم و انکم ٹیکس افسر، لے﴾ لے، مسلمانوں کا مال بغیر حق، بلا استحقاق لے لیا ہو۔ ولی الامر عادل﴿حکمران﴾ کا فرض ہے کہ اس مال کو اُن سے وصول کرے، مثلاً وہ ہدایا(تحفے) اور تحفے جو اُنہو ں نے اپنے عمل اور عہدے کے ذریعہ حاصل کئے ہیں، چنا نچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ھَدَایَا الْعُمَّالِ غَلُوْلٌ عمال(یعنی افسروں) کے(لئے) ہدایہ(تحفے تحائف لینا) غلول و غبن ہیں۔ اور ابراہیم حربی رحمہ اللہ اپنی کتاب الہدایا میں سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَالَ ہَدَایَا الْاُمَرَائِ غَلُوْلٌ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اُمراء﴿حکام اور اہل اختیار﴾ کے ہدایا اور تحفے غلول و غبن ہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہء ازد کے ایک آدمی کو جس کا نام ابن اللتبیہ تھا، صدقہ و زکوٰۃ وصول کرنے پر عامل﴿تحصیلدار﴾ مقرر کیا، اس نے آکر ما ل پیش کیا اور کہنے لگا: یہ مال آپ کا ہے اور یہ مجھے ہدیئے میں ملا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا بَالُ الرَّجُلِ نَسْتَعْمِلُہٗ عَلٰی الْعَمَلِ مِمَّا وَلَّانَا اللّٰه فَیَقُوْلُ ھَذَا لَکُمْ وَھَذَا اُھْدِیَ اِلَیَّ فَھَلَّا جَلَسَ فِیْ بَیْتِ اَبِیْہِ اَوْ بَیْتِ اُمِّہٖ فَیَنْظُرَ اَیُھْدٰی اِلَیْھِاَمْلَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَاْخُذُ مِنْہٗ شَیْئًا الاَّ جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَحْمِلُہَ عَلَی رَقْبَتِہٖ اِنْ کَانَ بَعِیْرًا لَہٗ رُغَائٌ اَوْ بَقَرَۃً لَھَا خُوَارٌ اَوْ شَاۃً نَنْعَدٌئِ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی رَأَیْنَا عَفْرَا ِبْطَیْہِ اَللّٰھُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ اللّٰھُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ ثَلَایًا۔ اس شخص کا کیا حال ہے جس کو ہم عمل اور کام سپرد کرتے ہیں اور وہ آکر کہتا ہے، یہ تمہارا مال ہے اور یہ مجھے ہدیئے میں ملا ہے، کیوں وہ باپ یا ماں کے گھر میں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ یہ تحفے اور ہدایا اسے ملتے ہیں؟ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چیز بھی وہ لے گا قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہو گی، اگر اونٹ ہے تو وہ چِلّا رہا ہو گا، اگر گائے ہے تو وہ بلبلاتی چیختی ہو گی، اور بکری ہے تو وہ میں میںکرتی ہو گی، اسکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
Flag Counter