Maktaba Wahhabi

82 - 234
ہے: مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ(بخاری و مسلم) نادہندہ مالدار(ٹال مٹول کرنے والا) ظالم ہے۔ اور حقدار کے حق کی ادائیگی میں دیر کرنا سراسر نادہندگی اور ظلم ہے۔ اور ظالم عقوبت و سزا کا مستحق ہے۔ اور یہ متفق علیہ اصول و کلیہ ہے کہ حرام کا مرتکب اور واجب کا ترک کرنے والا مستحق عقوبت و سزا ہے، پس اگر شریعت میں اس کی سزا مقرر نہیں ہے تو ولی الامر﴿حاکمِ وقت، قاضی یا جج﴾ اجتہاد سے کام لے اور اسے تعزیر کرے، اور نادہند مالدار کو سزا دے، اگر وہ﴿پھر بھی مال﴾ نہ دینے پر مصر ہے تو مار ماری جائے یہاں تک کہ وہ واجب ادا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس پر فقہاء کی صریح نص و تصریح ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے شاگردوں اور امام شافعی و امام احمدرحمہما اللہ نے اس کی پوری تصریح کر دی ہے، اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں، سب کے سب اس پر متفق ہیں۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے سو نا چاندی اور اسلحہ و ہتھیار کے عوض صلح کی اور یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا، تو بعض یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اور پوچھنے والا سعید جو حيبن اخطب کا چچا تھا، اس نے حي بن اخطب کے خزانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اَذْھَبَتْہُ الَّنفَقَاتُ وَالْحُرُوْبُ مال خرچ ہو گیا اور لڑائیاں لے گئیں۔ اس نے کہا آپ سے ابھی تو معاہدہ ہوا اور معاہدہ کی رو سے یہ مال بہت زیاہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعید کو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ انھوں نے اس کو سزا دی، راوی کہتا ہے کہ میں نے حي بن اخطب کو فلاں خرابے میں گھومتے دیکھا ہے، لوگ وہاں پہنچے، اور خرابے کو گھوم پھرکر دیکھا، ٹٹولا تو بہت سا مشک اس خر ابے سے نکلا۔ ظاہر ہے کہ یہ آدمی ذمی تھا، اور ذمی کو بغیر گناہ اور حق کے عقوبت و سزا نہیں دی جاتی۔ اور یہ حکم ہر واجب اور ضروری چیز کو چھپانے والے کا ہے، جبکہ و ہ واجب و ضروری چیز کے بتلانے میں کو تاہی کرے، ترکِ واجب کی بنا پر اُسے سزا دی جائے گی ۔
Flag Counter