Maktaba Wahhabi

81 - 234
اکثر والیانِ ملک اور رعیت مظالم سے دوچار ہوتے ہیں۔ والی اور امیر حلال و حرام کا پاس نہ رکھتے ہوئے رعایا سے مال وصول کرتے ہیں۔ اور رعایا اپنے فرض سے غا فل رہتے ہوئے مال کو روک لیتی ہے، مثلاً جند﴿فوج﴾ و لشکر اور فلاعین زراعت پیشہ لوگوں میں ظلم ہوتا ہے یا مثلاً لوگ فرض جہاد کو ترک کر دیتے ہیں، اور والیانِ ملک بیت المال میں اللہ تعالیٰ کا مال جمع کرتے ہیں۔ لیکن حلال و حرام کا قطعاً پاس و لحا ظ نہیں کرتے، اور مال نہ ادا کرنے پر عقوبت و سزا دی جاتی ہے﴿جیسے آجکل ٹیکس وغیرہ وصول کرنے والے مسلمانوں پر ہی ظلم و جور کر رہے ہیں اور نہ دینے پر سزا دے رہے ہیں﴾، مبا ح یا واجب چیز کو چھوڑ کر ایسے کا م کر گذرتے ہیں جو والیانِ ملک کے لیے کسی طرح جائز اور حلال نہیں ہیں۔ اور اصل یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس ایسا مال ہے جس کا ادا کرنا اس کے لیے فرض ہے، مثلاً اس کے پاس کسی کی ودیعت و امانت رکھی ہوئی ہے، یا کسی سے مضاربت یا شرکت ہے یا مؤکل(ڈیلر، کلائنٹ) کا مال ہے، یا کسی یتیم کا یا وقف مال ہے، یا بیت المال کا مال ہے، یا مثلاً قرض دار ہے اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکر سکتا ہے، جب ایسا آدمی واجب و حق کو روک لے اور ادا نہ کرے خواہ بعینہٖ ہو، یا قرض ہو اور امام جان لے کہ یہ آدمی قرض ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے، تو ایسے آدمی کو عقوبت اور سزا دی جائے گی، یہاں تک کہ وہ اپنا مال بتادے، یا ما ل کی جگہ بتلا دے کہ فلاں مقام پر مال ہے۔ جب یہ یقین و باور ہو جائے کہ اس کے پاس مال ضرورہے، اس کو قیدو بند میں رکھ دیا جائے، اور اس وقت تک قید میں رکھا جائے کہ وہ مال ظاہر کرے، اور بتلا دے، مار مارنے کی ضرورت نہیں، اگر مال بتانے اور ادائے دَین﴿یعنی قرض وغیرہ﴾ سے انکار کرے تو اُسے مارا پیٹا جائے یہاں تک کہ حقداروں کا حق ادا کرے، یا ادا کرنا ممکن ہو جائے۔ اور یہی حکم نفقہ واجبہ کا ہے، جبکہ وہ نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عروہ بن شرید عن ابیہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اَلْوَاجِدُ یَحِلُّ عِرْ ضُہٗ وَ عُقُوْبَتُہٗ (رواہ اہل السنن) جو﴿مال﴾ پائے اور نہ دے اسکا مال عزت آبرو اور اس کو عقوبت و سزا دینا حلا ل ہے۔ پانے والے کا مال لے لینا، اس کو عقوبت و سزا دینا حلال اور جائزہے۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں
Flag Counter