سکتیں مثلاً ولایت﴿افسری﴾ و حکومت﴿یعنی گورنری﴾، مال یا منافع مال اور حدود وغیرہ میں سفارش وغیرہ پورا کرنا۔ اور یہ سوال ان کا پورا نہیں کیا جاسکتا تو ان کو دوسرے طریقہ سے دوسری چیز دے کر خوش رکھنا چاہیے اور غفلت و سختی نہیں کرنی چاہیے جب تک کہ اس کی ضرورت نہ ہو کیونکہ سائل کے سوال کو مسترد کرنا، اُسے سخت تکلیف دہ ہوتا ہے خصوصاً ایسے لوگ کہ جن کی تألیف ِقلوب ضروری ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنْھَر اور نہ سائل کو جھڑکا کرو۔(ضحیٰ:10) اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا، الی قولہ وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآئَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلاً مَیْسُوْرًا اور رشتہ دار اور غریب اور مسافر ہر ایک کو اس کا حق پہنچاتے رہو اور مال و دولت بے جا مت اڑاؤ …… اور اگر تمہیں اپنے رب کے فضل کے انتظار میں جس کی تم کو توقع ہو، ان غرباء سے منہ پھیرنا پڑے تو نرمی سے اُن کو سمجھا دو۔(بنی اسرائیل:28۔26)۔ تو جب کسی شخص کو اس کی طلب و مانگ کے خلاف دیا جاتاہے تو اُسے تکلیف ہوتی ہے، ایسے موقع پر قول و عمل سے اُسے خوش رکھنا کامل ترین سیاست ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ حکیم و ڈاکٹر کسی کو مکروہ اور کڑوی دوائی دیدے اور پھر اُسے ایسی چیز دے جو اس کا نعم البدل ہو جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو اُن کو کہا گیا: فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی(طہ:44) پھر اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ سمجھ جائے یا ہمارے عتاب سے ڈرے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری کو یمن کی طرف بھیجا تھا۔ فرمایا: یَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا وَ بَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا لوگوں کے ساتھ آسانی برتنا، سختی نہ کرنا، خوش رکھنا، متنفر نہ کرنا، باہم ایک دوسرے کی اطاعت کرنا، اختلاف نہ کرنا۔(بخاری و مسلم)۔ |