Maktaba Wahhabi

195 - 234
’’ میں ارادہ کرتا ہوں کہ ان کو ایک مرتبہ حق نکال دوں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ وہ اس سے نفرت کریں گے تو میں صبر کر جاتا ہوں یہاں تک کہ میٹھی دنیا میرے پاس آجائے تو میں ان کو ساتھ ہی ساتھ ان کا حق دے دوں اگر اس سے نفرت کریں تو دوسری چیز سے ان کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔ یہی حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتھا کہ جب کوئی شخص حاجت لے کر آتا تو اس کی حاجت پوری فرما دیتے، یا آسان، خوش کن جواب دے دیتے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابتدار نے متولی اوقاف بننے کی خواہش کی اور کہا اس میں کچھ روزینہ مقرر کر دیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الصدقۃ لا تحل لمحمد ولا لال محمد صدقہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کی آل کے لیے حلال نہیں ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ سے بالکل منع فرما دیا اور فئے کے مال میں سے کچھ دے دیا۔ ایک مرتبہ سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی کی پرورش کے لیے تین دعویدار کھڑے ہوگئے، سیدنا علی، سیدنا زید اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہم ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنا رشتہ بتا کر کہا کہ حقِ پرورش مجھے پہنچتا ہے۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اپنا رشتہ بتا کر کہا کہ حقِ پرورش مجھے پہنچتا ہے اور سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا رشتہ بتا کر کہا کہ حقِ پرورش مجھے حاصل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے حق میں بھی فیصلہ نہیں دیا اور لڑکی کی خالہ کو دے دیا کہ خالہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے اور ہر ایک کو کلمہء حسنہ(اچھی باتوں) سے خوش کر دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: انت منی و انا منک تم مجھ سے ہو او رمیں تم سے ہوں۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا : اشبھت خلقی و خلقی تم میرے خلق﴿شکل و شباہت﴾ اور اخلاق کے مشابہ ہو۔ اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے کہا: انت اخونا و مولینا تم ہمارے بھائی ہو ہمارے مولیٰ(معزز) ہو۔ ولی الامر﴿وزیر خزانہ﴾ اور حاکمِ﴿وقت﴾ کو تقسیمِ مال اور دوسرے احکام دینے میں ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ لوگ ہمیشہ ولی الامر اور حاکم سے ایسی ایسی چیزیں مانگتے رہتے ہیں جو ان کو نہیں دی جا
Flag Counter