معاف کیا اور اصلاح کی۔ رعایا کے ساتھ نیک نیتی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ان کیساتھ وہ احسان کیاجائے جو ان کی خواہش ہو اور وہ چھوڑ دیا جائے جس کو وہ مکروہ سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَائَ ھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ(مومنون:71) اور اگر حق ان کی خواہش کے مطابق ہوا کرتا تو آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے درہم برہم ہوگیا ہوتا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ خطاب کرتا ہے: وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰه لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ(الحجرات:7) اور جان رکھو کہ تم میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )موجود ہیں؛ بہت سی باتیں(ایسی) ہیں کہ اگر وہ ان میں تمہارا کہنا مان لیا کریں تو تم ہی پر مشکل پڑ جائے۔ احسان یہ ہے کہ دین و دنیا میں جو ان کے لیے مفید ہو وہ کیاجائے اگرچہ وہ اسے مکروہ اور برا ہی کیوں نہ سمجھیں ، لیکن امیر و والی﴿یعنی حاکمِ وقت﴾ کا فرض ہے کہ جسے وہ مکروہ سمجھتے ہوں اور ان کے لیے مفید ہے تو رفق و نرمی کا سلوک کرکے ان کو منوائے جیسا کہ صحیحین میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماکان الرفق فی شیء الا زانہ ولا کان العنف فی شیء الا شانہ جب کسی چیز میں نرمی و آسانی کی جائے تو وہ خیر وبرکت لاتی ہے ، اور جب کسی چیز میں سختی کی جائے تو وہ برائی لاتی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللّٰه رفیق یحب الرفق و یعطی علی الرفق مال ایعطی علی العنف بیشک اللہ تعالیٰ بُردبار ہے، بُردباری اور نرمی پسند فرماتا ہے ، اور بُردباری و نرمی کرنے والے کو وہ کچھ دیتا ہے جو ترش رو﴿اکھڑ مزاج﴾ کو نہیں دیتا۔ اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: |