اور اگر ہم انسان کو اپنی مہربانی سے نوازیں پھر اس کو اس سے چھین لیں تو وہ نااُمید ہو جانے والا ناشکرا ہے۔ اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہو، اور اس کے بعد ہم اس کو آرام چکھائیں تو کہنے لگتا ہے کہ مجھ سے سب سختیاں دور ہو گئیں کیونکہ وہ بہت ہی خوش ہو جانے والا شیخی خور ہے۔ مگر جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں، یہی ہیں جن کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے فرمایا: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَانَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ، وَمَا یُلَقَّاھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقَّاھَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ، وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْعٌ فَاسْتَعِذْ بِااللّٰه اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، برائی کو اچھے طریقے سے دُور کرو کہ وہ بہت ہی اچھا ہو، تو تم میں اور کسی شخص میں عداوت تھی تو اب ایک دم سے گویا وہ گرمجوش دوست ہو جائے گا۔ اور حسن معاملات کی توفیق ان ہی کو دی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ ان ہی کو دی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں اور اگر تم کو کسی طرح کا شیطانی وسوسہ گدگدائے تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کرو کہ وہی سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔(حم سجدہ:36۔34) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ جَزَآؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰه اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، اس پر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الشوریٰ:40)۔ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: اذا کان یوم القیامۃ نادٰی مناد من بطنان العرش الا لیقم من وجب اجرہ علی اللّٰه فلا یقوم الا من عفا و اصلح قیامت کے دن عرش کے نیچے سے فرشتے پکاریں گے کہ وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جن کا اجرو ثواب واجب ہوگیا ہے تو کوئی کھڑا نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جس نے(دنیا میں) |