تو جیسی باتیں یہ کرتے ہیں، ان پر صبر کرو اور آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کرو۔(طہ:130)۔ اور فرماتا ہے: وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السَّاجِدِیْنَ ،(حجر:98۔97) اور ہم کو معلوم ہے کہ یہ کافر کس کس طرح کی باتیں کہتے ہیں، ان کی وجہ سے تم تنگ ہوتے ہو۔ تو تم اپنے رب کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اور اس کی جناب میں سجدے کرو۔ اور نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ قرآن مجید میں بہت سی جگہ بیان کیا گیاہے۔ نماز، زکوٰۃ اور صبر سے حکمران اور رعایا، امیر و غریب دونوں کی اصلاح ہوتی ہے؛ جب ایک انسان اس معنی کو سمجھ لے، اور سمجھ کر نماز پڑھے اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو جائے، دعا کرے، اللہ کے قرآن کی تلاوت کرے اور اخلاصِ دین اور توکل علی اللہ کے ساتھ نماز پڑے اور زکوٰۃ و صدقات کے ذریعہ اللہ کی مخلوق پر احسان کرے، مظلوم کی نصرت و امداد کرے، غریب مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت کرے، اور محتاجوں کی حاجتیں پوری کرے۔ صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ ہر اچھی بات صدقہ ہے۔ معروف میں ہر قسم کا احسان داخل ہے۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ کلمہ طیبہ، اچھی بات کہنا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ صحیحین میں سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا سَیُکَلِّمُہ‘ رَبُّہٗ لَیْسَ بَیْنَ وَبَیْنَہٗ حَاجِبٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ فَیَنْظُرَ اَیْمَنَ مِنْہُ فَلَا یَرٰی اِلَّا شَیْئًا قَدَّمَہٗ وَ یَنْظُرَ اَشْاَمَ مِنْہُ فَلَا یَرٰی اِلَّا شَیْئًا قَدَّمَہٗ فَیَنْظُرُ اَمَامَہٗ فَتَسْتَقْبِلُہٗ النَّارُ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتقِّیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ فَلْیَفْعَلْ فَاِنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے بات چیت کرے گا اور اللہ تعالیٰ اور اس(بندے) کے |