Maktaba Wahhabi

189 - 234
نہایت اہم ہے۔ اور اس معنی کی وضاحت فقہاء نے کی ہے۔ جب والیان امر﴿مثلاً: وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، چیف جسٹس، آئی جی پولیس، چیف آف آرمی، نیوی اور ائیر اسٹاف، صوبائی گورنرز، گورنر بینک دولت، وزراء اعلیٰ اور محکمہ جاتی وزراء، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس، ماتحت عدالتوں کے جج اور جج ریڈرز، ڈی،سی۔ اے،سی، مجسٹریٹ، کمشنر، کسٹم حکام اور ٹیکس افسران، ناظمین اور ناظمین اعلیٰ، کونسلرز وغیرہ وغیرہ﴾، والیان ملک﴿حاکمِ وقت﴾ لوگوں کے دین کی اصلاح کریں گے تو دونوں گروہ کا دین اور دنیا درست ہو جائے گا۔ امیر و والی اور رعایا دونوں فلاح و بہبود کو پہنچیں گے۔ ورنہ معاملہ گڑبڑ ہو جائے گا، اور ان کو حکومت کرنا دشوار ہو جائے گی۔ اور ان تمام باتوں کا ماحصل اور خلاصہ یہ ہے کہ رعیت کے لیے حسن نیت اور دین کے لیے اخلاص درکار ہے کہ اللہ کا دین ترقی کرے۔ اور وہ اللہ پر توکل و بھروسہ رکھے کیونکہ اخلاص و توکل ہی دو چیزیں ایسی ہیں جن پر خواص و عوام کی صلاح و بہبود موقوف ہے جیسا کہ ہمیں حکم ہوا ہے کہ ہم اپنی نماز میں یہ پڑھا کریں: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(الفاتحہ:4) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ان کلموں کے متعلق کہا گیا ہے کہ تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ اِن جملوں میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ، اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ(الفاتحہ3۔4) روز جزا کا حاکم ہے۔ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ’’پڑھتے ہیں تو لوگوں کے سر اپنے کندھوں پر ہل جاتے ہیں‘‘۔ اور اللہ نے قرآن میں بہت سی جگہ اس معنی کو ادا کیا ہے۔ مثلاً فرمایا: فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ(ہود :123) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھیں۔
Flag Counter