محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں بلکہ ان کا ارادہ تو صرف بھاگنے ہی کا ہے۔ یہ جہاد، قتال و جنگ! دین اور حرمت و عزت اور جانوں کی مدافعت کے لیے ہے۔ اور یہ اضطراری اور مجبوری کے سبب سے لڑنا پڑتی ہے۔ اور وہ قتال و جنگ اختیاری ہے۔ دین و ملت کی زیادتی اور اضافہ اور اعلاء کلمہء دین اور دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھنا مقصود ہے کہ دشمن کسی وقت بھی سر اونچا نہ کریں جیسے غزوۂ تبوک وغیرہ۔ تو یہ عقوبت و سزا اس جماعت سے جن سے لڑائی نہ کی جائے اور طاقتور گروہ کے مقابلہ کے لیے ہے لیکن اگر اس جماعت جس سے لڑائی نہ کی جائے اور طاقتور نہیں ہے، اِکّا دُکّا واقعہ ہے تو اس کے لیے یہ عقوبت و سزا نہیں ہے، جیسے کہ اسلامی آبادیوں میں ہوتا رہتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے امیر و حاکم کا فرض ہے کہ انہیں فرائض، واجبات، سنن و مستحبات کا پابند بنائے، اور اسلامی کی بنیادی تعلیمات، ضروریاتِ دین، اصولِ اسلام پر عمل کرائے۔ اور اس کے لیے مجبور کیا جائے۔ اور معاملات کے بارے میں ادائے امانت، وفاء عہد، ایفاء وعدہ پر مجبور کیا جائے۔ پس جو لوگ نماز ترک کر دیں اور عورتیں عموماً بے نمازی ہوں تو انہیں حکم دیا جائے کہ وہ نماز پڑھیں۔ جو نماز نہ پڑھے اُسے عقوبت و سزا دی جائے یہاں تک کہ وہ نماز پڑھنے لگ جائیں اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اور اکثر علماء کہتے ہیں کہ ایسے بے نمازی کو قتل کر دیا جائے۔ پہلے ایسے بے نمازیوں کو توبہ کرنے کا حکم دیا جائے۔ اور حکم دے کہ نماز پڑھا کریں۔ اگر توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے لگ جائیں تو بہتر ورنہ قتل کر دیئے جائیں۔ اب انہیں قتل کیا جائے تو کس گناہ کی بنا پر؟ آیا وہ نماز نہ پڑھنے سے کافر ہو جاتے ہیں اس لئے؟ یا مرتد یا فاسق ہو جاتے ہیں اس لئے؟ تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے مذہب کی رو سے دو قول مشہور ہیں۔ ایک قول کی رو سے وہ کافر ہو جاتے ہیں اس لیے قتل کئے جائیں۔ دوسرے قول کے مطابق وہ فاسق ہیں اس لئے۔ اور اکثر سلف سے جو منقول ہے وہ اسی کے حامی ہیں کہ وہ کافر ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کا قتل کرنا واجب ہے۔ اور یہ اس وقت ہے جبکہ وہ فرض و وجوب کا اقرار کریں اور نماز نہ پڑھیں۔ لیکن ایسا شخص کہ نماز کے فرض و وجوب کا انکار کرتا ہے تو وہ بالاتفاق کافر ہے بلکہ چھوٹے بچوں |