لیکن اگر دشمن کا ارادہ مسلمانوں کے خلاف جنگ و قتال کا ہے، اور ہجوم کر کے چڑھ دوڑے ہیں تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی مدافعت کریں۔ مدافعت ان پر فرض ہو جاتی ہے جن پر حملہ کیا گیا ہے، ان پر فرض اس لیے ہے کہ ان پر حملہ ہوا ہے۔ اور دوسرے مسلمانوں پر اس لیے کہ اہل اسلام کی اعانت و امداد فرض ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِیْثَاقٌ(الانفال:72)۔ ہاں اگر دین کے بارے میں تم سے مدد کے طالب ہوں تو تمہیں ان کی مدد کرنا لازم ہے، مگر اس کے مقابلے میں نہیں کہ تم میں اور ان میں صلح کا معاہدہ ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْلِمُ یَنْصُرُ الْمُسْلِمَ مسلمان، مسلمان کی امداد کریں۔ مسلمانوں کی امداد ضروری ہے، اس میں ان کو روزینہ ملے یا نہ ملے، اگرچہ روزینہ دینا بہتر ہے۔ تمام مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جان و مال سے اعانت و امداد کریں۔ اور یہ اعانت و امداد ان پر فرض ہے؛ جس قسم کی سہولت ہو، قلیل یا کثیر، پیادہ جائے یا سواری پر۔ بہرحال اعانت و امداد فرض ہے، جیسے کہ غزوۂ خندق کے وقت کہ جب کفار نے حملہ کیا تو سب مسلمانوں پر حسب ِ امکان جہاد فرض ہو گیا تھا۔ کسی ایک کو بھی اس جہاد کے ترک کرنے کی اجازت نہیں تھی جیسی کہ ترکِ جہاد کی اجازت ابتداء میں تھی کہ دشمنوں کی طلب میں نکلیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک گھروں میں رہنے والے اور دوسرے اللہ کی راہ میں لڑائی کے لیے نکلنے والے۔ نہ لڑنے والے اور لڑنے والے، بلکہ اس وقت بھی جن لوگوں نے عذر پیش کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ جانے کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا(احزاب ع:13) پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم)سے گھر لوٹ جانے کی اجازت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے گھر غیر |