شریعت اسلام سے خارج ہوں۔ اگرچہ وہ کلمہء شہادت یعنی لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زبان سے اقرار کریں۔ فقہاء کہتے ہیں اگر کوئی زبردست گروہ سنت کی مزاحمت کرے اور اسے ترک کرنے پر کمر بستہ ہوجائے مثلاً فجر کی دو سنتوں کاانکار کرے تو دونوں قول کے مطابق ان سے قتال و جنگ کی جائے۔ اور اگر واجبات اور محرمات ظاہرہ و ثابۃ و مشہورہ سے انکار کرے تو بالاتفاق ان سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزوں اور حج بیت اللہ کا التزام کر لیں اور محرمات مثلاً بہنوں وغیرہ سے نکاح کرنے، خبیث چیزوں کے کھانے اور مسلمانوں پر حکومت کرنے سے باز آجائیں، ایسے لوگوں سے قتال و جنگ واجب ہے۔اور قتال و جنگ اس وقت واجب ہے جبکہ دعوتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان تک پہنچ جائے۔ لیکن جب مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ لوگ جنگ کرنے کی ابتداء کریں تو اس وقت ان کا مقابلہ کرنا اور ان سے قتال و جنگ ضروری ہوجاتی ہے۔ عام فرض ہے کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اور اس طرح مقابلہ کریں جس طرح کہ مسلمانوں پر زیادتی کرنے والوں کا مقابلہ کیاجاتا ہے مثلاً قطاع الطریق﴿ڈاکو، راہزن، دہشتگرد﴾ وغیرہ۔ اور ان سے بھی زیادہ ضروری اور واجب ہے کہ کفار اور ایسی جماعت جن سے لڑائی نہ کی جائے جو بعض شرائع الٰہیہ﴿شرعی قوانین﴾ سے مزاحمت کریں؛ جنگ و قتال واجب ہے مثلاً زکوۃ نہ دینا اور خوارج کا فتنہ وغیرہ؛ تو ان سے مقابلہ اور قتال و جنگ کرنا واجب ہے۔ ابتداء جنگ میں مدافعانہ جنگ کی جائے اور یہ فرض کفایہ ہے۔ اگر بعض مسلمان جنگ و قتال میں حصہ لیں گے تو باقی مسلمانوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا، اگرچہ فضیلت اسی میں ہے کہ اس جنگ میں شرکت کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرِ اُولِی الضَّرَرِ(نساء ع 13) جن مسلمانوں کو کسی طرح کی معذوری نہیں اور وہ جہاد سے بیٹھ رہے، ان کی شرکت کی چنداں ضرورت بھی نہ تھی، یہ لوگ درجے میں برابر نہیں ہو سکتے۔ |