حیثیت ہے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تمہارے روزں کوئی حیثیت نہیں، قرآن پڑھیں گے اور خیال کریں گے قرآن ان کے لیے دلیل ہے حالانکہ قرآن ان کے خلاف ہو گا، ان کی قرأت ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گی۔ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے۔ تو اگر وہ جیش اور لشکر جن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ پہنچے کہ رسول اللہ کی زبان اقدس نے یہ فیصلہ کیا ہے، تو یقینا اس پر عمل کریں گے۔ اور سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اوپر والی حدیث میں یہ جملے بھی روایت کئے ہیں: یَقْتُلُوْنَ اَھْلَ الْاِیْمَانِ وَیَدْعُوْنَ اَھْلَ الْاَوْثَانِ لَئِنْ اَدْرَکْتُھُمْ لَاَقْتَلَنَّھُمْ قَتْلَ عَادٍ (بخاری و مسلم) ۔ وہ اہل ایمان والوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو دعوت دیں گے۔ اگر میں(صلی اللہ علیہ وسلم)ان کو پاؤں گا تو قوم عاد کی طرح انہیں قتل کروں گا۔ اور صحیح مسلم کی ایک روایت ہے: تَکُوْنُ اُمَّتِیْ فِرْقَتَیْنِ فَتَخْرُجُ مِنْ بَیْنِھِمَا مَارِقَۃٌ بَلٰی قَتْلَھُمْ اَوْلَی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ میری اُمت دو فرقوں میں بٹ جائے گی، ان دونوں میں سے بے دین لوگ کھڑے ہو جائیں گے تو جو لوگ حق پر ہوں گے وہ ان کو قتل کریں گے۔ یہ وہی لوگ تھے جن سے امیر المؤمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تھی جبکہ عراقی لوگوں میں اور شام کے لوگوں میں تفرقہ بازی ہوئی تھی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کا نام حروریہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں گروہ آپ کی اُمت سے علیحدہ ہیں اور اصحابِ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مارقین، بے دینوں کے سوا کسی سے جنگ کرنے کی تحریص و تحریک نہیں فرمائی بلکہ انہی لوگوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال کا حکم فرمایا جو اسلام سے خارج ہو گئے تھے، اور جماعت اسلام کو ترک کر دیا تھا۔ اور مسلمانوں کا خون اور مال اپنے لیے حلال و مباح کر لیا تھا۔ پس کتاب و سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہو گیا کہ اس جماعت سے قتال و جنگ کی جائے جو |