کر چھوڑ دینے کو منسوخ مانتے ہیں۔ رہا اہل کتاب اور مجوسیوں کا مسئلہ تو ان سے قتال و جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ ادا کریں؛ ان کے سوا دوسرے لوگوں سے جزیہ لینے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے، مگر عام فقہاء عربوں سے جزیہ نہیں لیتے۔ جو طائفہ جو گروہ اس کی نسبت اسلام کی طرف ہوتی ہے اور مسلمان کہلاتے ہیں لیکن بعض شرائع﴿یعنی شرعی قوانین﴾ سے وہ حذر﴿و احتراز﴾ کرتے ہیں یا منع کرتے ہیں اور وہ شرائع﴿قوانین﴾ ایسے ہیں جو ظاہر اور متواتر ہیں تو ان سے جہاد کرنا واجب ہے؛ اس پر تمام مسلمان متفق ہیں کہ ایسے لوگوں کے خلاف جہاد و قتال کرنا فرض ہے یہاں تک کہ اللہ کا دین کل کا کل پھیل جائے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ’’زکوۃ ‘‘ نہ دینے والوں کے خلاف جہاد کیا۔ گو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ابتدا میں اس سے اختلاف کیا لیکن بعد میں وہ بھی اس سے متفق ہوگئے مثلاً امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیف تقاتل الناس و قد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الہ الا اللّٰہ و ان محمدا رسول اللّٰہ فاذا قالوھا فقد عصموا منی دمائھم و اموالھم الا بحقھا و حسابھم علی اللّٰہ تم ان ﴿زکوٰۃ کے منکر﴾ لوگوں سے جہاد وقتال کیسے کر سکتے ہو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ اس وقت تک کروں کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ یہ شہادت دے دیں تو اپنی جان و مال بچا لیں گے مگر کسی حق کے ساتھ؛ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا: فَاِنَّ الزَّکَاتَ مِنْ حَقِّھَا وَااللّٰه لَوْ مَنَعُوْنِیْ عَنَاتًا کَانُوْا یُؤْدُّوْنَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نُقَاتِلْتُھُمْ عَلٰی مَنُعِھَا زکوٰۃ اس کلمہ کا حق ہے، اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ اس کا وہ ٹکڑا بھی مجھے دینے سے انکار کریں |