لا تقتلوا شیخا فانیا ولا طفلا صغیرا ولا امرأۃ شیخ فانی کو قتل نہ کرو، اور نہ چھوٹے بچوں کو قتل کرو نہ عورتوں کو۔ اور یہ اس لیے کہ قتال و جہاد مخلوق کی اصلاح اور فلاح و بہبود کے لیے مباح کیاگیا ہے۔ قتل کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ اس سے فلاح و بہبود متصور ہو جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: والفتنۃ اکبر من القتل اور فتنہ قتل سے بھی بہت بڑا شر ہے۔ یعنی قتل کرنا بھی شر اور فساد ہے۔ تو گویا کسی کو قتل کرنا بھی شر و فساد ہے مگر کفار کا شر و فساد اس سے بھی بڑھ کر ہے اور بہت بڑا فتنہ ہے۔ پس جو شخص دین کی اشاعت، دین کی اقامت سے منع نہیں کرتا؛ ان﴿مجاہدین﴾ کی مزاحمت نہیں کرتا تو اس کا کفر اسی کے لیے مضر ہے نہ کہ مسلمانوں کے لیے۔ اسی لیے فقہاء نے کہا ہے کہ ایسی بدعات کی دعوت دینا اور اس کی نشرو اشاعت کرنا جو کتاب اللہ اور کتاب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے، سراسر دین کی توہین ہے اور دعوت دینے والے اور اس کی نشرو اشاعت کرنے والے کو عقوبت و سزا دی جائے، خاموش رہنے والے کو وہ عقوبت و سزا نہ دی جائے۔ حدیث شریف میں وارد ہے: ان الخطیئۃ اذا اخفیت لم تضر الا صاحبہا ولکن اذا ظہرت فلم ضرت العامۃ جب خفیہ طور پر گناہ کیاجائے تو گناہ کرنے والے ہی کو نقصان کرتا ہے لیکن جب کھلے طور پر﴿گناہ﴾ کیاجائے اور اس سے روکا نہ جائے تو عام لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اسی لیے شریعت نے کفار سے قتال و جنگ واجب کیا ہے لیکن جو معذور اور بے بس ہیں ان سے قتال اور جنگ واجب نہیں کیا بلکہ اگر کوئی خفیہ طور پر قتال وغیرہ کا مشورہ دیتا ہے یا کشتی اور جہاز کی راہ بتلاتا ہے یا یہ کہ مسلمانوں کو غلط راستہ بتلاتا ہے یا اور کسی قسم کا کام کرتا ہے یا حیلہ بتلاتا ہے تو امام والی حاکم﴿گورنر اور حکمران﴾ کا فرض ہے کہ اصلح طریقہ اختیار کرے اور سوچ سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے اس کام سے دور رہنے کی ہدایت کرے یا قتل کر دے یا احسان کرکے چھوڑ دے یا فدیہ لے کر چھوڑ دے یاجان کی ضمانت لے کر اسے رہا کر دے۔ جو بہتر معلوم ہو وہ کرے۔ اکثر فقہاء کا یہی قول ہے اور کتاب و سنت بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں اگرچہ بعض فقہاء اس پر احسان کرنے اور فدیہ لے |