Maktaba Wahhabi

180 - 234
حرب و قتال اور جنگ کا اصل مقصد مشروعِ جہاد ہے اور جہاد کا مقصودِ اصلی یہ ہے کہ دین کل کا کل اللہ کا ہوجائے اور کلمہ الٰہی بلند ہو۔ لہٰذا جوشخص اس جہاد سے روکے، اس سے منع کرے یا اس میں مزاحمت پیدا کرے تو تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے اسے قتل کر دیا جائے۔ جو لوگ منع نہیں کرتے اور مسلمانوں کے مقابلہ میں جنگ و قتال نہیں کرتے، جو کسی طرح جہاد میں مزاحم نہیں ہیں جیسے کہ عورتیں، بچے، راہب، شیخ کبیر، بوڑھے، اندھے، لولے، لنگڑے اور اپاہج وغیرہ تو جمہور﴿علماء﴾ کا یہ فتویٰ ہے کہ ایسے لوگوں کو قتل نہ کیاجائے؛ انہی لوگوں کو قتل کرنا واجب ہے جو قول و فعل سے مسلمانوں کے خلاف حرب و قتال اور جنگ کرتے ہیں۔ گو بعض﴿علماء﴾ سب کو قتل کرنا مباح کہتے ہیں او ریہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ کافر ہیں اس لیے قتل کر دیا جائے۔ ہاں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ یہ تو مسلمانوں کامال ہے۔ پہلا قول صحیح اور صواب ہے کیونکہ جہاد یہی ہے اور اسی کا نام ہے کہ جب ہم دین کی دعوت پیش کریں، دین کی اشاعت کریں، دین حق کو پھیلانا چاہیں تو وہ آگے سے ہم سے لڑیں ہم کو روکیں اور تبلیغ و اشاعت کی راہ میں مزاحمت کریں؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے: وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰه لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن اور مسلمانو ! جو لوگ تم سے لڑیں تم بھی اللہ کی راہ میں اُن سے لڑو اور زیادتی نہ کرنا؛ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(البقرہ:190) اور سنن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کچھ لوگوں کو جمع پایا اور ایک متقولہ عورت کو دیکھا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: ماکانت ھذہ لتقاتل یہ عورت تو کسی کو قتل نہیں کرتی تھی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا: الحق خالدا فقل لہ لا تقتلوا ذریۃ ولا عسیغا جاؤ جاکر خالد﴿بن ولیدرضی اللہ عنہ ﴾ سے کہو کہ چھوٹی اولاد، محنت مزدوری کرنے والے ، بے ضرر غلاموں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔ اور اسی سنن میں ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter