Maktaba Wahhabi

179 - 234
بتلائیں تو سہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم یہ طاقت رکھتے ہو کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تم روزے رکھنا شروع کرو اور کسی بھی دن روزہ نہ چھوڑو اور رات کو تہجد پڑھو اور کبھی ناغہ نہ کرو؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ عبادت جہاد کے برابر ہوسکتی ہے۔ اور سنن میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لکل امت سیاحۃ و سیاحۃ امتی الجہاد فی سبیل اللّٰه ہر اُمت کی سیرو سیاحت ہوتی ہے جبکہ میری اُمت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے یہ بات بہت وسیع ہے؛ حقیقت ِ جہاد، اعمالِ جہاد اور اس کے اجرو ثواب اور فضیلت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ غورو فکر کیا جائے تو یہ ظاہر ہے کیونکہ جہاد کا نفع مجاہد اور دوسروں کے لیے دین و دنیا میں عام ہے اور ہمہ قسم کی عبادات و طاعاتِ ظاہرہ و باطنہ پر مشتمل ہے اس لیے کہ جہاد محبت الٰہی، اخلاص اور توکل علی اللہ پر مشتمل ہے۔ مجاہد اپنی جان و مال اللہ کے حوالے کر دیتا ہے؛ صبر و زہد، ذکر الٰہی اور ہمہ قسم کے اعمال اس کے اندر شامل ہیں۔ جہاد کے علاوہ دوسرا کوئی عمل ایسا نہیں ہے جس میں یہ تمام اعمال شامل ہوں۔ جو شخص او رجو اُمت جہاد کرتی ہے وہ دو قسم کی نیکیوں سے ہمیشہ بہرہ ور ہوتی ہے ایک تو نصرتِ الٰہی، فتح و ظفر یا شہادت پاکر جنت حاصل کر لے اور دوسرا یہ کہ خلق اللہ کے لیے زندگی اور موت کامسئلہ بڑا اہم ہے۔ جہاد میں دین و دنیا کی سعادت ہے اور زندگی او رموت کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ ترکِ جہاد سے دنیا و آخرت کی سعادت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے یا ان میں نقصان پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ شدید قسم کی ریاضت کرتے ہیں، دین و دنیا کے لیے اعمالِ شاقہ برداشت کرتے ہیں، باوجود اس کے ان سے منفعت بہت کم حاصل ہوتی ہے جبکہ جہاد ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ نفع ہے اور اعمال شاقہ(انتہائی سخت عمل) سے کہیں زیادہ اس میں منفعت ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنی ترقی اور اصلاح کے لیے ایسے اعمالِ شاقہ کر گذرتا ہے کہ موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن شہید کی موت ہمہ قسم کی اموات سے آسان اور سب سے بہتر ہے۔﴿اللہ تعالیٰ ہم سب کو شہادت کی موت عطا فرمائے آمین﴾(ابوعبداللہ) ۔
Flag Counter