Maktaba Wahhabi

137 - 234
ادا نہ کرے، اور عورت(بیوی) مرد سے سرکشی کرے۔ اور عقوبت و سزا صاحب مال کا حق ہے۔ تو یہ لوگ بدرجہء اولیٰ عقوبت و سزا کے حقدار ہیں اور زیادہ سزاوار عقوبت و سزا ہیں۔ اور پھر بھی اگر صاحب ِ مال ان کو بخش دے یا مصالحت کر کے عقوبت و سزا کو معاف کر دے تو یہ اُسے اختیار ہے۔ بخلاف حد قائم اور جاری کرنے کے کہ حد قائم اور جاری کرنا فرض ہے اور اُسے حد معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کسی حال میں حق نہیں کہ وہ حد قائم کرنے سے روکے۔ اور امام، حاکم کے لیے یہ جائز نہیں کہ صاحب ِ مال کی بات کو پکڑے رہے کہ اس نے اپنا حق چھوڑ دیا، یا معاف کر دیا۔ اور اگر مال وہ خردبرد کر چکا ہے، یا کسی اور طریقہ سے تلف اور ضائع ہو گیا تو اس مال کی ضمانت لی جائے گی جس طرح کہ غاصب لوگوں سے ضمانت لی جاتی ہے۔ اور یہ قول امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کا ہے۔ اور جب تک اُسے عسرت و تنگی ہے آسانی اور سہولت ملنے تک مہلت دی جائے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے عزم اور قطع ید(ہاتھ کاٹنا) دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ اور یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں یہ ضمانت صرف آسانی تک ہو گی۔ اور یہ قول امام مالک رحمہ اللہ کا ہے، اور سلطان کے لیے جائز نہیں کہ مال کے مالکوں سے ان محاربین﴿لڑائی کرنے والوں﴾ کے مقابلہ کے لیے عوض کچھ لے، سلطان کو اپنے لیے بھی لینا جائز نہیں، نہ لشکر اور فوج کے لیے کچھ لینا جائز ہے۔ بلکہ اُن کا مقابلہ کرنا جہاد ہے۔ اور جہاد و غزوات کے لیے جہاں سے اُن کا خرچ دیا جاتا ہے وہاں سے اُن کا خرچ بھی دے۔ اگر ان مجاہدین کو زمینیں دی گئی ہیں، یا حکومت کی جانب سے انہیں اتنا مل رہا ہے کہ اُن کے لیے کافی ہے تو بس کرنا﴿یہی کافی ﴾ ہے۔ اور اگر کافی نہیں ہے تو مصالحت ِ قوم کے لیے جو صدقات وغیرہ جمع ہیں اُس میں سے بقدر کفایت ان کو کچھ دے دے کیونکہ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اگر مسافر پکڑے گئے ہیں اور ان پر زکوٰۃ باقی ہے، مثلاً وہ تاجر ہیں اور چوروں کے نرغے میں پھنس گئے ہیں تو امام اور حاکم ان سے مال کی زکوٰۃ ضرور وصول کرے۔ اور اس زکوٰۃ کے مال کو اس جہاد فی سبیل ااَللّٰه میں خرچ کرے جس طرح کہ محارب لوگوں کے مقابلہ میں لڑنے والوں کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ اور اگر یہ گروہ باشوکت و عظمت اور قوی ہے جن کی تالیف قلبی ضروری ہے تو امام﴿یعنی گورنر﴾ و
Flag Counter