Maktaba Wahhabi

138 - 234
حاکمِ﴿وقت﴾ مال فئے اور جو مصالح معین کے لیے جمع ہے اس میں سے اور زکوٰۃ میں سے بعض رؤساء اور سرداروں کو دیدے تاکہ وہ باقی دوسروں﴿سرکشوں﴾ کو حاضر کریں۔ یا یہ کہ وہ خود شرارت اور سرکشی چھوڑ دیں اور باقی میں ان لوگوں کا زور کم ہو جائے تو یہ اور اس جیسا کام کرنا امام﴿یعنی گورنر﴾ و حاکمِ﴿وقت﴾ کے لیے جائز ہے۔ اور یہ لوگ مؤلفۃ القلوب میں شمار کئے جائیں گے۔ اور امام احمد اور بہت سے ائمہ نے بھی یہی کہا ہے اور ظاہر کتاب و سنت اور اصول شریعت بھی یہی ہے۔ اور امام﴿یعنی گورنر﴾ و حاکمِ﴿وقت﴾ کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو اُن چوروں، راہزنوں اور ڈاکوؤں کے مقابلہ میں نہ بھیجے جو ضعیف اور کمزور ہوں۔ اور نہ ایسے لوگوں کو بھیجے جو مسافر ہیں اور پکڑے گئے ہیں یا تاجر و سوداگر اور مال دار ہیں ان سے تو مال وغیرہ وصول کر لیا جائے۔ بلکہ قوی و مضبوط اور امین لوگوں کو بھیجے مگر ہاں جبکہ قوی اور مضبوط اور امین آدمیوں کا ملنا دشوار ہو تو اس صورت میں کوشش کرے اور امثل فالا مثل کو بھیجے۔ بعض نائبین سلطان﴿وزیر اعظم، گورنر اور وزراء وغیرہ﴾، روسأ﴿بڑے بڑے جاگیردار، چوہدری اورخان﴾ و﴿اعلیٰ سول و پولیس﴾ حکام اور سردار و سالار﴿یعنی فوجی حکام﴾ ظاہر و باطن میں حرامی﴿اسمگلروں﴾ چوروں، ڈاکوؤں اور راہزنوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں او ریہ ظاہر یاباطن میں ان کو شہہ دیتے ہیں۔ جو مال حرامی﴿اسمگلر﴾ چور، ڈاکو اور راہزن لوٹتے ہیں اس میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ ماخوذین﴿جن کا مال لوٹا گیا ہے اُن﴾ کو کچھ مال دے کر راضی کر لیتے ہیں اور بوجہ مجبوری وہ اُسے منظور بھی کر لیتے ہیں﴿لیکن﴾ یہ ایک ایسا عظیم ترین جرم ہے کہ حرامیوں چوروں، ڈاکوؤں راہزنوں کے مقدم﴿یعنی پیشوا﴾ اور سردار سے بڑھ کر ہے کیونکہ اُن کی مدافعت ممکن ہے اور اس﴿حاکم و بیورو کریٹ﴾ کی مدافعت نہیں ہوسکتی۔ اور ایسے لوگوں کے متعلق ہی کہا جائے گا کہ جو اُن کی مددو معاونت کرتا ہے وہ عقوبت و سزا کا مستحق ہے۔ اگر یہ لوگ قتل کریں تو اُن کو قتل کیا جائے۔ یہی قول سیدنا امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور اکثر اہل علم کا ہے۔ اگر یہ لوگ مال﴿لے﴾ لیں تو سیدھا ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹا جائے۔ اگر یہ لوگ قتل کریں اور مال لوٹیں تو اُنہیں قتل کیاجائے اور سولی پر لٹکا دیا جائے۔ اہل علم کے ایک گروہ کا کہنا یہ ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں اور قتل کر دیا جائے اور
Flag Counter