Maktaba Wahhabi

136 - 234
جب اس کا دفعیہ بغیر جنگ و قتال کے نہیں ہو سکتا تو ان سے جنگ و قتال کیا جائے، اگر جنگ و قتال نہ کیا جائے، اور کچھ مال وغیرہ دے کر انہیں راضی کر لیا جائے تاامکان مال دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی کی حرمت پر حملہ کیا جائے، کسی کی محارم سے زنا کیا جائے، یا کسی عورت یا مملوک﴿غلام﴾ لڑکے سے فجور و بدکاری کی جائے تو جان و مال سے تاامکان اس کی مدافعت کی جائے، اگر قتال و جنگ کرنا پڑے تو یہ بھی کرے، لیکن کسی طرح ایسے کام کی اجازت نہ دے۔ بخلاف مال دینے کے کہ یہ جائز ہے، کیونکہ مال کا خرچ کرنا جائز ہے اور اپنے ساتھ یا محارم عورتوں کے ساتھ فجور و بدکاری قطعاً جائز نہیں ہے۔ جب اس کا مقصود یہ ہو کہ کسی کو قتل کرے تو اس کے لیے اپنی جان کا بچانا لازم ہے اور یہ مدافعت اس پر واجب ہے، اس میں علماء کے اور امام احمد کے اور دوسروں کے مذہب میں دو قول ہیں۔ یہ اس وقت جبکہ لوگوں کا سلطان موجود ہو لیکن اگر العیاذ بااَللّٰه عظیم فتنہ ہو، مثلاً دو مسلم سلطان باہم جنگ کرتے ہیں اور ملک کے لیے جنگ کر رہے ہیں جبکہ ان میں سے ایک دوسرے کے ملک میں داخل ہو گیا ہے اور تلواریں باہم چل رہی ہیں، ایسے فتنہ کے وقت اپنی جان بچانا ضروری ہے۔ تو ایسی صورت میں مسلمان کے لیے جائز ہے اپنی جان اُن کے حوالہ کر دے اور دونوں میں سے کسی کا ساتھ نہ دے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں اور دوسروں کے مذہب میں اس بارے میں دو قول ہیں۔ جب مسلمان حاکم وقت! محارب﴿لڑائی کرنے والے﴾ حرامیوں، چوروں اور راہزنوں پر کامیاب ہو اور وہ مال وغیرہ لوٹ چکے ہیں تو سلطان کا فرض ہے کہ وہ ان لوگوں سے مال نکلوائے اور جن کا ہو اُن کو دیدے۔ اور ان محاربین پر حد جاری کرے، یہی حال اور یہی حکم چوروں کا ہے، اگر یہ لوگ مال حاضر کرنے میں تامل کریں اور مال کا ثبوت سلطان کو مل چکا ہے تو سلطان اُن کو اسیر و قید اور حبس کرے اور مار مارے اور مناسب عقوبت(جیل و قید و بند) اور سزا دے یہاں تک کہ جو کچھ اُن لوگوں نے لیا ہے وہ حاضر کر دیں، یا کسی کو اپنا وکیل بنا دیں کہ وہ لا کر مال حاضر کر دیں، یا جہاں مال چھپایا ہے اُس کی خبر دے دیں۔ جیسے حق واجب اور قابل ادا کو نہ دینے والے کو عقوبت و سزا دی جاتی ہے اور جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں عورت(بیوی) کو مارنے کا حکم دیا، جب وہ مرد کا(خاوند کا) حق
Flag Counter