حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔ اور یہ اللہ کا فرمان بھی ہے۔ اَوْ تُقطِّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِنْ خَلَافٍ(المائدۃ:34) یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کاٹ دیئے جائیں۔ ہاتھ کاٹا جائے جس سے وہ پکڑتے اور چھینتے تھے۔ اور پاؤں کاٹا جائے جس سے یہ چلتے تھے۔ ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد کھولتے ہوئے زیتون کے تیل میں داغ دیئے جائیں تاکہ خون بند ہو جائے اور اُس کی جان تلف نہ ہو۔ چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں اُن کا بھی یہی طریقہ ہے۔ اور یہ عمل یعنی ہاتھ پاؤں کاٹنا ایسا عمل ہے کہ قتل سے زیادہ موجب زجر و توبیخ﴿عبرتناک﴾ ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ اعراب و فساق، لشکری غیر لشکری(اور آبادیوں میں رہنے والے) ہمیشہ کٹے ہوئے ہاتھ اور پاؤں دیکھا کرتے ہیں اور باہم مذاکرہ کرتے رہتے ہیں کہ فلاں جرم کے عوض میں یہ سزا ملی ہے۔ اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ بخلاف قتل کے کہ اکثر اسے بھول جایا کرتے ہیں۔ اور اسی لیے بعض لوگ ہاتھ پاؤں کاٹنے کے مقابلہ میں قتل ہونے اور مرنے کو پسند کرتے ہیں۔ یقینا چوروں وغیرہ کے لیے یہ سزا نہایت عبرت آموز ہے۔ اور اگرچہ لوگ اسلحہ نکال لیں۔ مگر کسی کو گزند نہیں پہنچائی اور نہ مال وغیرہ لوٹا ہے۔ اور پھر تلواریں نیام میں کر لیں یا بھاگ گئے۔ یا لوٹ مار اور جنگ چھوڑ دی تو ایسے لوگوں کو جلاوطن کردیا جائے۔ کہا گیا ہے جلاوطن کرنے کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک شہر اور آبادی میں اجتماعی حیثیت سے انہیں نہ رہنے دیا جائے۔ بعض کہتے ہیں انہیں حبس و قید میں رکھا جائے یہی ان کے لیے جلاوطنی ہے، بعض کہتے ہیں جلاوطن کرنے کے معنی یہ ہیں کہ امام و امیر اور حاکم جس بات کو قوم کے حق میں اصلح﴿زیادہ بہتر﴾ سمجھے وہ کرے، خواہ جلا وطن کرے یا حبس و قید میں رکھے یا جو طریقہ بھی مناسب ہو معلوم کرے۔ اور شرعی قتل یہ ہے کہ تلوار یا کسی دوسری تیز چیز سے انسان کی گردن کاٹ دی جائے۔ کیونکہ قتل کا آسان ترین طریقہ یہی ہے۔ اللہ نے آدمی، بہائم اور چوپایوں کو اسی طرح قتل کرنا مشروع فرمایا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان اللّٰہ کتب الاحسان علی کل شیء فاذا قتلتم فاحسنوا القتلۃ و اذا ذبحتم |