میں سب ایک ہاتھ کی مانند ہیں۔ اور مسلمان سریہ﴿فوجی جنگی دستہ﴾ بھیجیں تو اُس سریہ میں مال﴿و اسبابِ جنگ﴾ بھیجنے والے، بیٹھے رہنے والوں کے برابر ہیں۔ یعنی جب مسلمانوں کا لشکر چند آدمیوں کو بطور سریہ بھیجیں اور اس سریہ نے مال غنیمت حاصل کیا تو اُس میں مسلمانوں کا لشکر بھی شریک رہے گا۔ کیونکہ اسی کے بل بوتے پر غالب رہے ہیں۔ اور انہی کی قوت و تمکنت سے قدرت پائی ہے۔ ہاں کچھ نُفل یعنی زائد دیا جائے تو یہ دوسری﴿بہتر﴾ بات ہے۔ نبی کریم ا نے نُفل اور زائد سریہ﴿فوجی دستے﴾ کو دیا ہے۔ ابتداء میں خمس کے بعد ایک ربع دیا تھا۔ جب لوگ وطن واپس لوٹے اور وطن سے سریہ بھیجا تو خمس کے بعد ایک ثلث یعنی تہائی حصہ دیا تھا۔ اسی طرح اگر فوج و لشکر مال غنیمت حاصل کرے تو سریہ کو شریک کر لیا جائے کیونکہ سریہ﴿فوجی دستہ﴾ مسلمانوں کی فوجی، لشکری مصلحتوں کی وجہ سے بھیجا گیا ہے۔ جس طرح کہ نبی کریم ا نے جنگ بدر میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو دیا تھا۔ اس لیے کہ لشکر اسلام اور مسلمانوں کی فوجی مصلحت کی وجہ سے یہ بھیجے گئے تھے، تو اس گروہ کے معاونین و انصار معاون و مددگار وہی فائدہ اٹھائیں گے جو﴿دوسرے﴾ لوگ اٹھا رہے ہیں۔ جو اُن کے لیے ہو گا ان کے لیے بھی ہو گا اور جو اُن پر ہو گا وہ ان پر بھی ہو گا۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو باطل پر لڑے مرے اور بلا تاویل کے قتل ہوئے مثلاً قبائلی عصبیت یا جاہلیت کی دشمنی کی بناء پر باہم لڑے اور قتل ہوئے۔ جیسے کہ قبیلہء قیس اور قبیلہء یمن وغیرہ۔ دونوں کے دونوں ان میں سے ظالم تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِذَا التَقی المُسْلِمَانِ بِسَیْفَیْھِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُوْلُ کِلَاھُمَا فِی النَّارِ جب دو مسلمان باہم تلواریں سونت لیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں(بخاری و مسلم) ان میں سے ہر گروہ دوسرے گروہ کی جان و مال تلف کرنا چاہتا تھا۔ گو قاتل اور مقتول نہیں جانتے تھے کہ کون مرتا ہے اور کون مارتا ہے۔ ہر طائفہ، ہر گروہ اپنی مدافعت کرتا تھا اور دوسرے کو مارتا تھا۔ لیکن اگر صرف مال لوٹ لیا ہے قتل نہیں کیا جیسا کہ اکثر اعراب﴿بدوؤں﴾ کا دستور ہے تو اس صورت میں ہر ایک کا داہنا ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ مثلاً امام ابو |