کے پاس پہنچتے ہیں، اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں وہ مجرم کی حمایت و سفارش کرتے ہیں اور مجرم کو چھڑا کر لے جاتے ہیں، تو وہ وہی سفارش و حمایت ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَعَنَ اللّٰه مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ اٰویٰ مُحْدِثًا فَکُلُّ مَنْ اٰوٰی مُحْدِثًا مِنْ ھٰؤُُلاَئِ الْمُحَدِثِیْنَ فَقَدْ لَعَنَہُ اللّٰه وَرَسُوْلُہٗ صلی اللّٰه علیہ وسلم جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی یا جو شخص گناہ گار کو پناہ دے تو جو مجرم کو پنا ہ دے گا تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر لعنت ہو گی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو فرما ہی چکے ہیں: مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُہٗ دُوْنَ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰه فَقَدْ ضَادَّ اللّٰه فِیْ حُکْمِہٖ۔ جس کی شفاعت و سفارش حد ود جاری کرنے میں آڑ ے آئی تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اللہ کا مقابلہ کرتا ہے۔ پس بتایئے کہ جن کے ہاتھ میں حدود کے اجراء و قیام کے اختیارات ہیں وہ ان مجرموں گنہگاروں سے معاوضہ لے کر چھوڑ دیں، اور ان کا جرم معاف کردیں تو کتنا بڑا فساد برپا ہو گا؟ اور بڑے سے بڑا فساد تو یہ ہے کہ وہ معتدین، ظالموں کی حمایت کر رہا ہے۔ کسی کے جاہ و مرتبہ اور اثر و رسوخ کی وجہ سے حمایت کی جائے یا مال اور رشوت لے کر﴿مجرم کو اسلامی سزا نہ دینے والا جج اور مجرم﴾ دونوں برابر ہیں۔ اور پھر یہ کہ جو مال ان سے لیا جاتا ہے، وہ بیت المال کا مال ہوتا ہے، یا والی﴿قاضی، جج یا حاکم وقت﴾ کا۔ اور والی حاکم﴿حاکم یا قاضی و جج﴾ مخفی طور پر کبھی لیتا ہے اور کبھی اعلانیہ۔ اور ظاہر ہے کہ سب کا سب حرام مال ہے، اور اس کی حرمت پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے۔ مثلاً خمرو شراب کی دوکانوں کی ضمانت(یعنی پرمٹ) وغیرہ کہ جو شخص بھی اس کی قدرت رکھتا ہے، اور اس کو جگہ دیتا ہے، یا دلواتا ہے، یا اس کی کسی قسم کی امداد و اعانت کرتا ہے، یا مال اور رشوت لے کر اُسے اجازت دیتا ہے، یہ سب کے سب مجرم ہیں اور سب کے سب ایک ہی جنس کے لوگ ہوں گے اور یہ مہر بغی﴿یعنی﴾ زنا کی اُجرت و |