Maktaba Wahhabi

116 - 234
کے رؤساء، امراء، غریبوں اور فقیروں کو بڑی بڑی امداد دینے والے، ان کے سردار اور مقدم، عوام اور لشکروں کی خرابی کا موجب ہوتے ہیں۔ اور یہی چیزولی الامر جج؍قاضی اور حاکمِ وقت کی عزت و حرمت بھی ختم کر دیتی ہے۔ دونوں سے اس کی عزت و حرمت ختم ہو جاتی ہے۔ اور جج، قاضی، ولی الامر اور حاکم کی حکومت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ وہ رشوت لیتا ہے۔ اور رشوت لے کر حد ساقط کر دیتا ہے۔ جب ایک کی حد ساقط کر دی تو دوسروں پر حد جاری کرانا اس کے لیے دشوار ہو جاتا ہے۔ حد جاری کرنے میں اس کا دل، اس کا ضمیر بالکل کمزور ہو جاتا ہے۔ اور پھر یہ ملعون یہودیوں کے قبیل سے ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک اثر کے اندر ہے: اِذَا دَخَلَتِ الرِّشْوَۃُ مِنَ الْبَابِ خَرَجَتْ اَمَانَۃٌ مِّنْ کُوَّۃٍ جب رشوت ایک دروازے سے داخل ہوتی ہے تو دوسرے راستے سے امانت چلی جاتی ہے یہی حال اس مال﴿یعنی ٹیکس﴾ کا ہے جو دولت و سلطنت باقی رکھنے کے لیے لیتے ہیں۔ جس کا نام ان لوگوں نے تادیبات﴿ٹیکس و جرمانہ﴾ رکھاہے۔ یہ مال قطعاً حرام ہے۔ تم ان اعراب و بدو و گنوار مفسدوں کو دیکھو جب یہ اپنے لیے یا کچھ لوگوں کے لیے کچھ کر لیتے ہیں تو جج، قاضی، ولی الا مر یا حاکمِ وقت کے یہاں کس شان سے پہنچتے ہیں۔ اور یہ گھوڑے(اور آجکل بڑی بڑی گاڑیاں) پیش کرتے ہیں۔ اس پیش کش کے بعد طمع، لالچ اور فساد کا جذبہ کس قدر بڑھ جاتا ہے، یہ لوگ ولایت و سلطنت اور حکومت کی حرمت وعزت کس طرح توڑ دیتے ہیں۔ اور رعایا کیسی خراب ہو جاتی ہے۔ یہی حال فلاحین کسانوں کا ہے۔ اسی طرح شراب نوش لوگوں کا ہے۔ جب کوئی شرابی پکڑا جاتا ہے اور کچھ مال پیسہ رشوت میں دے دیتا ہے تو وہ کیسی کیسی اور کس کس قسم کی امیدیں قائم کر لیتا ہے؟ ہر شرابی کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جب ہم پکڑ ے جائیں گے تو کچھ دے دلا کر چھوٹ جائیں گے۔ پس جو مال جج، قاضی، ولی الامر یا حاکمِ وقت لیتا ہے اس میں برکت نہیں ہوتی اور فساد بدستور قائم اور موجود رہتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی بڑا آدمی صاحب عزت و جاہ کسی کی حمایت کرتا ہے اور اس کو حد جاری کرنے سے بچالیتا ہے۔ مثلاً بعض فلاحین﴿خوشحال﴾ و کسان﴿زمیندار﴾ کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے بعد جج، قاضی، نائب سلطان(آئی۔جی۔پولیس، بڑے بڑے سول و فوجی افسروں) یا امیر﴿حاکمِ وقت﴾
Flag Counter