اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا کہو۔ وہ بولا میرا لڑکا اس کے گھر پر اُجرت پر کام کیا کرتا تھا، اُس سے اس کی عورت کے ساتھ زنا ہو گیا ہے۔ اُس کی جانب سے میں نے سو بکریاں جرمانہ میں دے دی ہیں اور ایک غلام بھی آزاد کر دیا ہے۔ میں نے علماء سے مسئلہ پوچھ کر ایسا کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: تمہارے لڑکے کے لیے سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی ہے اور اس کی عورت کے لیے رجم کی حد جاری ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَاَ قْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰه اَلْمِائَۃُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْکَ وَ عَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَۃٍ وَ تَغْرِیْبُ عَامٍ واغد یَا اُنَیْسُ عَلَی امْرَأَۃِ ھٰذَا فَاسْئَلْھَا فَاِنِ اعْتَرَفَتَ فَارْجُمْھَا فَسَئَلَھَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَھَا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں کتاب اللہ سے تمہارا فیصلہ کروں گا: سو بکریاں اور خادم تم واپس لے لو۔ تمہارے لڑکے کو سو کوڑے لگیں گے۔ اور ایک سال جلاوطن رہے گا۔ اے انیس رضی اللہ عنہ تم صبح ہوتے ہی اس عورت کے پاس جاؤ اور پوچھو۔ اگر وہ گناہ کا اعتراف کرے تو تم اُسے رجم کردو۔ جب پوچھا گیا تو اُس نے زنا کا اعتراف کر لیا تو اُسے رجم کر دیا گیا۔ غور کیجئے کہ مسلمانوں کو، مجاہدین اسلام کو، فقراء و مساکین کو مال مل رہا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا، اور حد ساقط نہیں فرمائی۔ چنانچہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ تعطیل حد، یعنی حد ساقط کرنے کے لیے مال وغیرہ لینا جائز نہیں ہے۔ اور تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ زانی، چور، شراب خور، ڈاکو اور راستے کاٹنے والے قطاع الطریق، راہ زن وغیرہ سے حد ساقط کرنے کے لیے جو مال لیا جائے وہ حرام اور خبیث ہے۔ اور عام طور پر بیشمار لوگوں کے اُمور فاسد اور خراب ہی ہوا کرتے ہیں﴿یعنی وہ﴾ مال و دولت اور جاہ جلال اور قوت و طاقت کے ذریعہ حدود ساقط کرادیتے ہیں۔ اور دیہات، قصبے، شہر، دیہاتی اعراب، ترکمان، کرد، فلاحین اور اہل ہوا ونفس﴿نفس و خواہشات کی پیروی کرنے والے﴾ ۔ مثلاً قبس و یمن اور شہر |