Maktaba Wahhabi

114 - 234
ہے۔ اور جو مال بھی تعطیل حد، اور حد ساقط کرنے کے لیے لیا جائے گا سُحت﴿رشوت﴾ اور حرام﴿مال﴾ ہوگا۔ اگر ولی الامر﴿جج، قاضی یا﴾ حاکم نے ایسا کیا تو اس نے دو خرابیاں جمع کر لیں۔ ایک تو یہ کہ اس نے حد ساقط کر دی اور حرام مال لیا۔ دوسری یہ کہ اُس نے فرض ترک کیا۔ اور حرام چیز کا مرتکب ہوا، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: لَوْ لَا یَنْھَا ھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْ لِھِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ (مائدہ:63) ان کو ان کے مربی یعنی مشائخ اور علماء جھوٹ بولنے اور حرام مال کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے، البتہ بہت ہی بُری ہے وہ در گذر جو ان کے مشائخ اور علماء کرتے رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ یہود کی کیفیت بیان فرماتا ہے: سَمَّاعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْتِ (مائدہ:42) یہ لوگ جھوٹی باتیں بنانے کے لیے جاسوسی کرنے والے اور(رشوت کا) حرام مال کھانے والے ہیں۔ کیونکہ یہودی سُحت﴿یعنی رشوت﴾ حرام اور خبیث مال لیا کرتے تھے، رشوت کھاتے تھے، جس کا نام اُنہوں نے ’’برطل‘‘ رکھا تھا۔ اور جسے ہدیہ﴿یعنی تحفہ﴾ وغیرہ کہا کرتے تھے۔ جب جج، قاضی یا حاکم﴿رشوت کا﴾ حرام مال لے گا تو ضرور وہ جھوٹی گواہی وغیرہ بھی لے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اَلرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ وَالرَّائِشُ الْوَاسِطَۃُ الَّذِیْ یَمْشِیْ بَیْنَھُمَا رشوت لینے والا رشوت دینے والا اور جو دونوں کے درمیان ذریعہ(Middle man)ہے سب برابر کے گنہگار ہیں۔(رواہ اہل السنن ) ۔ اور صحیح بخاری، اور صحیح مسلم میں ہے دو آدمیوں نے اپنا جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا فیصلہ کتا ب اللہ سے فرما دیجئے۔ دوسرا آدمی ذرا ہوشیار تھا، اُس نے بھی کہا ہاں یارسول اللہ کتا ب اللہ سے ہمارا فیصلہ فرما دیجئے۔ اور مجھے کچھ کہنے کی
Flag Counter