ظاہر مذہب یہ ہے کہ ایسی صورت میں حد جاری نہیں ہو گی۔ ہا ں خودبخود حد کا طالب ہے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ اور اگر وہ چلا گیا، اور حد جاری کرانا نہیں چاہتا تو حد اس پر جاری نہیں کی جائے گی۔ اور سیدنا ماعز بن مالک tکی حدیث اسی پر محمول ہے، جس وقت صحابہ نے رجم کے وقت کی ان کی کیفیت بیا ن کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ھَلَّا تَرَکْتُمُوْہُ ان کو تم نے چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟ اس کے علاوہ دیگر احادیث و آثار بھی پائے جاتے ہیں کہ جن سے ثابت ہے کہ قدرت پانے سے پہلے، جج، حاکم یا قاضی کے سامنے پیش ہو نے سے پہلے توبہ کر چکا ہے تو اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔ اور سنن ابی داؤد، اور سنن نسائی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَعَافُوا الْحُدُوْدَ فِیْمَا بَیْنَکُمْ فَمَا بَلَغَنِیْ مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ (ابوداؤد۔نسائی) تم آپس میں ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو، کیونکہ جب میرے سامنے معاملہ پیش کر دیا جائے گا تو حد کاجاری کرنا واجب ہوجائے گا۔ اور سنن نسائی، اور ابن ماجہ میں سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَدٌّ یُعْمَلُ بِہٖ فِی الْاَرْضِ خَیْرٌ لِاَھْلِ الْاَرْضِ مِنْ اَنْ یُّمْطَرُوْا اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا زمین پر(ایک) حد جاری کرنا، چالیس دن برسات برسنے سے(پیدا ہونے والے معاشی و علاقائی فوائد سے) زمین والوں کے لیے بہتر ہے۔ اور یہ اس لیے کہ گناہ و معاصی: کمی رزق اور دشمن سے خوف کا سبب ہیں۔ جیسا کہ کتاب اللہ اور کتا ب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر دلا لت کرتی ہیں۔ جب حدود کا اجراء و قیا م ہو گا اور اطاعت الٰہی غالب اور ظاہر ہو جائے گی تو گناہ، معاصی اور اللہ کی نافرمانی کم ہو جائے گی۔ اور جب معاصی اور گناہ کم ہو جائیں گے تو رزق بھی خوب ملے گا اور اللہ کی نصرت و امداد بھی نصیب ہو گی۔ اور زانی، چور اور شرابی، راستے کاٹنے والے راہزن وغیرہ سے﴿رشوت کا﴾ مال لے کرحد کو معطل کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے، نہ بیت المال میں شامل کرنا جائز ہے نہ کسی اور کے لیے لینا جائز |