پس اگر وہ اپنے عمل میں کاذب اور جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے فریب دل کو پھلنے پھولنے نہیں دے گا۔ اَنَّ اللّٰه لَا یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ 0(سورۂ یوسف:52) بیشک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کی تدبیروں کو چلنے نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا جَزَائُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰه وَرَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِّنَ الْاَرْضِ ذَالِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ط فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰه غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (مائدہ:34۔33) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)سے لڑنے اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملک میں دوڑے دوڑے پھرتے ہیں ان کی سزا تو بس یہی ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیئے جائیں یا ان کو سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے(یعنی سیدھا ہاتھ تو الٹا پاؤں یا الٹا ہاتھ اور سیدھا پاؤں)کا ٹ دئے جائیں، یا ان کو دیس نکالا﴿یعنی جلا وطن کر﴾ دیا جائے، یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہے، مگر جو لوگ اس سے پہلے کہ تم ان پر قابو پاؤ، تو بہ کر لیں تو جانے دو کہ اللہ معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا ہے جو قدرت پانے(یعنی گرفتار ہونے) سے پہلے تائب ہوگئے ہیں۔ ولی الامر﴿جج یا﴾ حاکم کے پاس پہنچنے سے پہلے جو تو بہ کر چکاہو فقط وہی مستثنیٰ ہے۔ جو قدرت پانے کے بعد اور حاکم کے سامنے پیش ہونے کے بعد توبہ کرے تو اس پر حد کا اجراء فرض اور ضروری ہے۔ اس پر حد جاری کی جائے گی۔ آیت کا عموم اور اس کا مفہوم اور علت جو اللہ نے بیان کی ہے، اسی پر دلالت کرتی ہے۔ اور یہ اس وقت ہے جبکہ بینہ﴿دلیل﴾ اور گواہ سے جرم ثابت ہو اور یا جب خود مجرم اپنے جرم کا اقرار کر لے۔ اور اگر وہ خود آکر جرم و گنا ہ کا اقرار کر لے اور اس سے پہلے توبہ بھی کر لی ہے، تو اس میں اختلاف ہے جو دوسرے مقام پر مذکور ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا |