فَھَلَّا قَبْلَ اَنْ تَأتِیَنِیْ بِہٖ عَفَوْتَ عَنْہُ ثُمَّ قَطَعَ یَدَہَ(رواہ اھل السنن) کیوں میرے پاس لانے سے پہلے اُسے معاف نہیں کر دیا؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا ہاتھ کٹوادیا۔ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ اگر میرے پاس لانے سے پہلے تم معاف کر دیتے تو ایسا ہو سکتا تھا۔ جب میرے پاس لے آئے تو اب تعطیل حد کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ نہ معاف کرنے سے ممکن ہے، نہ سفارش سے نہ بخشش سے۔ میرے علم کے مطابق علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ راہزن، ڈاکو، لٹیرے اور چور وغیرہ جب ولی الامر یعنی حاکمِ وقت، جج یا قاضی وغیرہ کے سامنے پیش کر دیئے جائیں اور پھر ڈاکو، چور توبہ کرے تو حد ساقط نہیں ہوگی بلکہ حد قائم رکھنا اور جاری کرنا فرض و لازم ہے۔ اگر ان لوگوں نے توبہ کی اور یہ اپنی توبہ میں سچے تھے تو یہ حدان کے لیے کفارہ بن جائے گی۔ اور توبہ میں استقامت ان کی توبہ کو استوار اور مضبوط کر دے گی، اور یہ چیز حقدار کے حقوق کا پورا پورا قصاص و بدلہ۔ اور بدلہ کی قدرت پانے کے برابر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس قول میں اس کی اصل موجود ہے: مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا ط وَکَانَ اللّٰه عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقِیْتًا (نساء:85) اور جو شخص نیک با ت کی سفارش کرے اس نیک کام کے اجر میں سے اس کو بھی حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے، اس کے وبال میں وہ بھی شریک ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر ضابط ہے۔ کیونکہ شفاعت کے معنی ہی طلب اعانت کے ہیں۔ شفیع﴿سفارش کرنے والا﴾ اور شفع﴿جس کے لیے سفارش کی جائے﴾ دو کو کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وتر آتا ہے۔ تو شفیع اس وتر کے ساتھ ہو گیا تو گویا ایک تھا، دوہو گئے، پس اگر نیکی اور تقویٰ کی اعانت کروگے تو یہ شفاعت حسنہ ہو گی۔ اگر اثم گناہ اور عدوان کی شفاعت و سفارش کرو گے تو یہ شفاعت سیۂ ﴿بری شفاعت﴾ ہو گی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں شفاعت اور سفارش کا تمہیں حکم دیاگیا ہے اور اِثم و گناہ کی شفاعت وسفارش سے تمہیں روکا گیا ہے۔ |