بطن دو خاندان ہی تھے۔ بنو مخزوم اور بنو عبدمنا ف، جب اس پر ہاتھ کاٹنا واجب ٹھہرا، اور ایسی چیز کے عوض کہ بعض علماء کے نزدیک عاریت﴿یعنی ادھار﴾ لی گئی تھی اور بعض کے نزدیک خاص چوری کی گئی تھی۔ تو بدیگر چہ رسد۔ یہ قبیلہ سب سے بڑا قبیلہ تھا۔ سب سے زیادہ شریف﴿یعنی افضل﴾۔ اور خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور دوست سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے سفارش کی تھی۔ ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے۔ اس شفاعت و سفارش سے سخت برہم ہوئے اور کہا، تم ایک حرام و ناجائز بات لے کر آئے ہو۔ یہ حدودِ الٰہی کے بارے میں سفارش ہے۔ اور پھر آپ نے مثال میں اپنی بیٹی سیدۃ النساء فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مثال پیش کی کہ اگر یہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کٹوا دیتا۔ روایت کی گئی ہے کہ جس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا تھا، اس نے توبہ کی تھی۔ اور ہاتھ کٹنے کے بعد یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیا کرتی تھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کوئی حاجت ہوتی تو پوری فرما دیا کرتے تھے۔ اور وایت کی گئی ہے: اِنَّ السَّارِقَ اِذَا تَابَ سَبَقَتْہٗ یَدَہٗ اِلَی الْجَنَّۃِ وَاِنْ لَمْ یَتُبْ سَبَقَتْہٗ یَدُہٗ اِلَی النَّارِ چور جب توبہ کر لے گا تو وہی ہاتھ جو کاٹا گیا ہے جنت میں داخل ہونے میں سبقت کرے گا۔ اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کا یہی ہاتھ دوزخ کی طرف سبقت کرے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں روایت کی ہے۔ ایک جماعت نے ایک چور کو پکڑ لیا تاکہ اُسے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچائیں، راستے میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ملے، ان لوگوں نے درخواست کی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے آپ اس کی شفاعت و سفارش کر دیں۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’جب حدود کا معاملہ جج یا حاکم و سلطان تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سفارش کرنے والے پر اور جس کے لیے سفارش کی جائے اس پر لعنت بھیجتا ہے‘‘۔ سیدنا صفوان بن اُمیہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سوئے ہوئے تھے۔ ایک چور آیا اور اُن کی چادر لے کر چلتا بنا۔ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے اُسے پکڑلیا اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اُسے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدمہ سن کر چور کا ہاتھ کا ٹنے کا حکم دیا۔ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میری چادر میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟ میں اسے بخش دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: |