کیونکہ جو لوگ پرہیزگاری کرتے ہیں اور جو حسن سلوک سے پیش آتے ہیں اللہ انکا ساتھی ہے اور یہ وہی ہے کہ لوگوں کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا جائے۔ ان کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ اور خود حلال وطیب کھائیں۔ اور یہ کہ اوپر کے لوگ(یعنی حاکم و بااختیار لوگ) خرچ کم کر دیں کیونکہ قدرتی بات ہے کہ اوپر کے بسنے والے سے لوگ لینے کی تمنا زیادہ رکھتے ہیں، عفیف(سفید پوش) سے اتنی تمنا نہیں رکھتے[1] اور جس قدر عفیف سے لوگ اپنی اصلاح کر لیتے ہیں غیر عفیف سے نہیں کرسکتے۔ غر ض یہ کہ رعایا پروری کا تقاضا یہ ہے کہ رعیت کا پورا پورا خیال رکھا جائے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا اچھاکہا ہے۔ بررعیت ضعیف رحمت کن تا از دشمن قوی زحمت نہ بینی ضعیف و کمزور رعیت پر رحم کرو تاکہ قوی دشمن سے زحمت نہ اٹھاؤ اور سچ تو یہ ہے کہ زمین اللہ کا ملک ہے، اس پر اللہ ہی کا دستور اور حکومت چلنی چاہیئے۔ اسی سے دنیا و آخرت درست ہو سکتی ہے اور سب کی ذمہ داری دو گروہوں پر ہے، اور وہ امراء اور علماء ہیں۔ اگر یہ دونوں گروہ درست ہیں تو ساری مخلوق اور معاشرت درست ہو جائے گی، اگر یہ ناہموار ہیں تو ہر چیز(مثلاً معاشرت، معیشت، دولت و حکومت) ناہموار ہو گی۔ کیونکہ قدرت و امکان کے ساتھ عفت سے کام لینا، یہی تقویٰ اور دین کی حرمت ہے۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابو سفیان بن حر ب سے روایت ہے کہ ہرقل شاہ روم نے ابو سفیان کو جواب دیتے ہوئے کہا یہ پیغمبر کیا تعلیم دیتے ہیں؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا وہ ہمیں نماز پڑھنے کو کہتے ہیں، سچائی و پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم کرتے ہیں۔ اور ایک اثر میں ہے، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی اتاری کہ اے ابراہیم تمہیں خبر |