Maktaba Wahhabi

103 - 234
ہے کہ میں نے تم کو اپنا خلیل کیوں بنایا ہے؟ اس لیے بنایا ہے کہ تم کو دینا زیادہ محبوب ہے اور لینا کم محبوب ہے۔ او رہم عطا اور بخشش دینے کا ذکر کر چکے ہیں کہ سخاوت اور قومی فوائد کو پیش نظر رکھنا ہر حال میں ضروری ہے، اور صبر و غضب میں دفعِ مضرت کا خیا ل رکھنا شجاعت و بہادری ہے اسے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اور غضب و غصہ کے بارے میں لوگ تین قسم کے ہیں، ایک وہ جو اپنے لیے اور پروردگار عالم کے لیے غضب و غصہ کر تے ہیں۔ دوسرے وہ جو نہ اپنے لیے غضب و غصہ کرتے ہیں نہ پروردگار عالم کے لیے۔ تیسرے وہ جس کو امت وسط کہتے ہیں ان کا غضب و غصہ صرف پروردگار عالم کے لیے ہی ہوتا ہے، اور اس لیے وہ غضب و غصہ سے آشنا ہی نہیں ہوئے، جیسا کہ صحیحین میں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مر وی ہے وہ کہتی ہیں: مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بِیَدِہٖ خَادِمًا لَہٗ وَلَا اِمْرَأَۃً وَلَا دَابَّۃً وَلَا شَیْْئًًا قَطُّ اِلَّا اَنْ یُّجَاھِدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه وَ لَا نِیْلَ مِنْہٗ شَیْئٍ فَانْتَقَمْ لِنَفْسِہٖ قَطُّ اِلَّا اَنْ تَنْتِھَکَ حُرُمَاتِ اللّٰه فَاِذَا اِنْتَھَکَ حُُُُُُُُُُرُمَاتِ اللّٰه لَمْ یَقُمْ لِنَفْسِہٖ شَئٌ حَتّٰی یَنْتَقِمَ ِاللّٰه نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی اپنے خادم کو مارا، نہ عورت کو، نہ جانور کو، اور نہ کسی اور کو، مگر جہاد فی سبیل اللہ کے وقت، اور آپ کو نہیں دیکھا گیا کہ اپنے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقام لیا ہو، مگر ہاں جب حدود اللہ کا مذاق اُڑایا جائے، جب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کوئی تھام نہیں سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا انتقام لے لیتے۔ جس کا غضب و غصہ اپنے لیے اپنی جان کے لیے ہے، پروردگا رِ عالم کے لیے نہیں یا جو اپنے لیے وصول کرتا ہے، پروردگا ر عالم کے لیے نہیں اور دوسروں کو نہیں دیتا تو یہ چوتھی قسم کے لوگ مخلوق میں شریر ترین لوگ ہیں۔ نہ ان سے دین کی اصلاح ممکن ہے نہ دنیا کی۔ صالح اور نیک بندوں کی سیاست کامل تھی، ان کا طریقہ یہ تھا کہ واجبات پر پورا پورا عمل کرتے تھے، محرمات سے قطعاً بچتے تھے، یہ
Flag Counter