اور کہا کرتے ہیں : لَا فَارِسَ الْخَیْلِ وَلَا وَجْہَ الْعَرَبِ نہ گھوڑے کی سواری جانتا ہے نہ عرب کا وجیہ انسان ہے۔ یہاں﴿بیورو کریسی میں﴾ تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر دنیا کی محبت غالب ہے۔ ان کا مقصد صرف اللہ کی زمین پر اپنی برتری، علو اور بڑائی، غرور، تکبر، فساد و افساد ہے۔ آخرت کا انہیں مطلقاً خیال نہیں ہے۔ اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ عطیہ اور انعام و اکرام کے بغیر ان کی سلطنت باقی نہیں رہ سکتی، اور یہ اس کی قدر نہیں رکھتے، اور اس لیے وہ حرام مال وصول کرنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ اور ایسے لوگ غارتگر، اور لٹیرے بن جاتے ہیں، اور کہتے ہیں: ’’ولایت و امارتِ سلطنت و حکومت اسی کو ملتی ہے جو کھاتے کھلاتے، دیتے دلاتے رہتے ہیں۔ عفیف، پاک دامن لوگ قطعاً محروم رکھے جاتے ہیں اور اس پر اس کے امراء رؤسا خفا ہو جاتے ہیں، بگڑ جاتے ہیں اور اُسے معزول کر دیتے ہیں‘‘ ایسے لوگ دنیائے عاجل کو دیکھتے ہیں اور کل آنے والی دنیا کو بھول جاتے ہیں۔ اور آخرت کو بھی بھول جاتے ہیں۔ اگر انہیں توبہ نصیب نہ ہوئی، اصلاح آخرت کی توفیق میسر نہ آئی تو خسرالدنیا و الآخرۃ کے مصداق بن کر رہ جاتے ہیں۔ دوسرا فریق﴿بیورو کریسی میں﴾ وہ ہے جو اللہ کا خوف رکھتا ہے۔ مخلوق و رعایا پر ظلم کرنا بُرا سمجھتے ہیں۔ حرام مال سے بچنے کا اعتقاد بھی رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ عمدہ سے عمدہ اور اچھا سے اچھا فرض ہے۔ باوجود اس کے وہ یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ سیاست پوری طرح انجام نہیں پاتی جب تک حرام نہ لیا جائے اور حرام نہ کھایا جائے اور اس لیے وہ سیاست ہی سے علیحدہ ہو جاتے |