کی وجہ سے نماز کو بار بار دہراتا ہے، اسے ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے نماز کو چھوڑ دے۔ یہ بتائیے کہ اس کا یہ مشورہ شریعت کی روشنی میں درست ہے؟ جواب:… العیاذ باللہ! یہ مشورہ درست کیسے ہو سکتا ہے؟ اس آدمی نے وہ علاج بتایا ہے جو بیماری سے بھی زیادہ خطرناک ہے، یعنی نماز کو چھوڑ دینا۔ بغیر علم کے اس کا یہ مشورہ دینا اس آدمی کی جہالت کی دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام لوگوں سے زیادہ دلوں کی بیماریوں اور ان کے علاج سے واقفیت رکھتے تھے، انہوں نے تو یہ مشورہ نہیں دیا۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ جو آدمی عقیدہ کے بارے میں وسوسوں کا شکار ہو جائے ، اسے کہا جائے کہ پہلے تو کفر کر پھر دوبارہ اسلام قبول کر۔ جب کہ ایک عاقل اور مخلص مسلمان سے اس بات کی اُمید کرنا ہی محال ہے۔ اس لیے جس بندے نے یہ بات کہی ہے اسے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ بغیر علم کے یہ فتویٰ دینے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے توبہ کرے۔ اسے اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دینا پڑے گا۔ جب کہ مریض کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ کرے اور نماز پڑھنا شروع کر دے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو واحد علاج بتایا ہے وہ یہی ہے کہ شیطان مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جائے اور ان خیالات کو ذہن سے جھٹک دیاجائے۔ سوال:… یہ بتائیے کہ عورتیں وسوسو ں کا زیادہ شکار کیوں ہو تی ہیں؟ جواب:… اس کی ایک وجہ ہے ، اور وہ ہے عورتوں کی فطری کمزوری اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں ان کی رغبت۔ فطری کمزوری ، بھلائی کی طرف رغبت اور عبادت کی پختگی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عورتیں وسوسوں کی زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ بہت سے نوجوان بھی اس بیماری کا شکار ہیں اور ان میں بھی یہی وجوہات ہیں، یعنی قوتِ ارادی کی کمی اور نیکی کی رغبت۔ سیّدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ یا سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ یہودی کہتے ہیں کہ اپنی عبادات میں ہمیں وسوسوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دل عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ |