کرتے ہوئے شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ نیت نہیں کی، یا طواف اور سعی کرتے ہوئے وسوسہ آتا ہے کہ ابھی صرف تین یا چار چکر لگائے ہیں حالانکہ طواف اور سعی کے چکر مکمل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو اس خبیث و لعین سے انسان کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ کبھی کبھی یہ صورتِ حال خانگی معاملات میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ آدمی کے دل میں طرح طرح کے وسوسے اور توہمات در آتے ہیں۔ جب آدمی دروازہ کھولتا ہے تو خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں تو اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہوں یا تلاوت کرنے کے لیے قرآن مجید کھولتا ہے تو پھر شیطان دل میں خیال ڈال دیتا ہے کہ تم تو اپنی بیوی کو طلاق دے چکے ہو۔ یہ ایسے خطرناک خیالات ہیں کہ انسان لاکھ کوشش کے باوجود ان سے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ البتہ ایک طریقہ ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا اور سمجھایا ہے کہ ان حالات میں انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور استغفار کرتے ہوئے ان خیالات سے پناہ مانگے۔ اگرچہ گزشتہ بالا باتوں پر عمل کرنا کسی بھی انسان کے لیے انتہائی مشکل ہے، لیکن صبر، ثواب کی اُمید اور شیطان مردود کی شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہنا ایسے ہتھیار ہیں جو انسان کی شخصیت اور قوتِ ارادی کو مضبوط بناتے ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ شیطانی وساوس کی اس یلغار سے گھبرا کر بعض لوگ نماز اور دیگر عبادات ترک کر دیتے ہیں۔ افسوس ! صدافسوس! یہی تو شیطان کی منشا ہے ، یہی تو وہ چاہتا ہے۔ بعض بھائی کہتے ہیں کہ ان وسوسوں کی وجہ سے نیت کرنا، تکبیر کہنا اور سورۂ فاتحہ پڑھنا وغیرہ ا ن کے لیے انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے جواب میں ، میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ان تمام معاملات میں صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے، اور اپنے روز مرہ معاملات کو حسب سابق انجام دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ضرور آپ کو ان حالات سے نجات دے گا اور شیطان کو آپ سے دُور کر دے گا، لہٰذا ان معاملات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا ہی مفید اور فائدہ مند ہو گا۔ |