ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس قسم کے وسوسوں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ اس مشکل کو آسانی میں تبدیل کردے گا۔ ایک نمازی آدمی کی مشکل یہ ہے کہ شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ اگرچہ تو نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا ہے مگر نماز کی نیت نہیں کی۔ آدمی بھی سوچنے لگتا ہے کہ شاید میں نے واقعی نماز کی نیت نہیں کی ، حالانکہ اسے سوچنا چاہیے کہ وہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا ہے تو کیا نیت کے بغیر ہی کھڑا ہو گیا ہے؟ نمازی کا نماز کے لیے کھڑا ہونا ہی تو نیت ہے۔ ایک سمجھ دار اور عاقل آدمی جب کسی کام کو کرنے کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے تو یہی اس کی نیت ہوتی ہے ، پھر نماز کی باری آجاتی ہے، جب نمازی سورۂ فاتحہ کے بعد تلاوت شروع کرتا ہے تو خیال آتا ہے کہ سورۂ فاتحہ تو پڑھی نہیں ، اس میں سے فلاں حرف پڑھنے سے رہ گیا ہے یا فلاں فلاں حروف اصلی مخارج سے ادا نہیں ہوئے ۔ اس طرح کے دیگر بھی خیالات آتے ہیں۔ ان خیالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نمازی کو اپنی نماز جاری رکھنی چاہیے۔ اس کے بعد تعداد رکعت کا وسوسہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایک رکعت پڑھی ہے حالانکہ دو رکعتیں پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں جب کہ تین پڑھی ہوتی ہیں۔ اس طرح کرتے کرتے کبھی کبھی نمازی دس پندرہ رکعتیں پڑھ جاتا ہے لیکن یہ وسوسہ اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ بات پھر وہی کہ ان خیالات اور وسوسوں سے بچاؤ کا واحد ذریعہ اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا ہے۔جب انسان اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہ سارے واہمے دُور ہو جاتے ہیں۔ جب رو زوں کی باری آتی ہے تو پھر انسان کی آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ انسان سحری کا کھانا کھاتا ہے ، لیکن شیطان پھر بھی وسوسہ ڈالتا ہے کہ تو نے روزے کی نیت نہیں کی، یا شبہ ڈالتا ہے کہ تو نے اپنی نیت توڑ لی ہے۔ ایسے موقع پر بھی انسان کو ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے اور شیطان مردود کی شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ عمرہ و حج کرنے والوں کو بھی اس صورتِ حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ طواف اور سعی |