((رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَۃٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ۔ وَعَنِ الصَّغِیْرِ حَتّٰی یَبْلُغَ۔ وَعَنِ الْمَجْنُوْنِ حَتّٰی یُفِیْقَ۔))
’’تین قسم کے لوگوں سے قلم اُٹھا لیا گیا (یعنی وہ دینی فرائض سے مستثنیٰ ہیں) (۱)سونے والا یہاں تک کہ نیند سے جاگ جائے۔(۲) بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے۔ (۳)دیوانے و مجنون سے یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔‘‘
جہاں تک میں سمجھا ہوں تم مجنون و دیوانے والی قسم میں آتے ہو کیونکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آدمی دریا پر جائے، وہاں غسل جنابت کرے اور پھر یہ بھی سوچے کہ میں ابھی پاک نہیں ہوا؟
اس لیے میں کہتا ہوں کہ جس آدمی کو وضو کرتے ہوئے یہ خیال آئے کہ اس نے نیت کی ہے یا نہیں؟ تو اسے چاہیے کہ اس وسوسے کو خاطر میں لائے بغیر اپنا وضو مکمل کرے۔
یہ تو تھی نیت کی بات۔ شیطان وضو کے دوسرے اُمور میں بھی انسان کو ورغلانے کی کوشش کرتاہے۔ بندہ سرکا مسح کر رہا ہوتا ہے تو خیال پیدا کردیتا ہے کہ تو نے کلی تو کی ہی نہیں۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اس قسم کے خیالات کو ذرا بھی اہمیت نہ دی جائے اور اپنا وضو مکمل کر کے نماز ادا کی جائے۔
بعض دفعہ معاملہ دوسرا بھی ہو جاتا ہے، یعنی وضو کے درمیان وسوسہ پیدا نہیں ہوتا، لیکن انسان جب وضو سے فارغ ہوتا ہے تو وسوسے آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ تم نے تو نیت ہی نہیں کی ، تم نے تو چہرہ دھویا ہی نہیں ، تم نے تو کلی کی ہی نہیں، یا اس طرح کے دیگر خیالات۔ ایسے موقع پر انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے ، ان خیالات سے رُک جائے اور انہیں کوئی اہمیت دیے بغیر اپنے معمولات میں مشغول رہے۔ اعضا کو دھونے کی تعداد کے بارے میں بھی انسان وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے۔کبھی خیال کرتا ہے کہ مکمل عضو ہی نہیں دھویا اور کبھی خیال کرتا ہے کہ دھونے کی گنتی پوری نہیں کی۔ جب انسان ان وسوسوں کا شکار ہوتا ہے تو پھر بار باراعضا کو دھوتا ہے۔ یقینا یہ ایک تکلیف دہ صورتِ حال ہے لیکن ا س سے بچنے کا
|