Maktaba Wahhabi

138 - 186
اور حج جیسے اعمال سر انجام دیتا ہوں۔ ہم ایسے شخص کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہیں گے کہ ان وسوسوں کو ذرا بھر بھی اہمیت نہ دی جائے اور اپنے روز مرہ معمولات اور عبادات کو جاری رکھا جائے۔ اگرچہ ابتدا میں یہ بات کافی مشکل ہو گی لیکن آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور یہ معاملہ آسان ہو جائے گا، کیونکہ یہ علاج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز کیا ہے کہ جو دلوں اور سینوں کی بیماریوں کو تمام لوگوں سے زیادہ جاننے والے تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ شیطان موقع کے انتظار میں رہتا ہے اور جونہی اسے موقع ملتا ہے اپنا وار کر جاتا ہے۔ اب یہی بات لے لیجیے کہ انسان طہارت و پاکیزگی کے لیے نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی کے لیے وضو کرتا ہے تو یہ لعین دشمن فوراً آموجود ہوتا ہے۔ سب سے پہلا وسوسہ کیا ڈالے گا؟ یہی کہ تو نے وضو کی نیت نہیں کی ،حالانکہ انسان وضو کرنے کے لیے عملاً کام کر رہا ہے جب کہ یہ خبیث دشمن وسوسہ ڈال رہا ہے کہ تو نے تو نیت ہی نہیں کی۔ ایک عقل مند انسان کو جب یہ معاملہ پیش آتا ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ شیطان کا وار ہے ، اور دین کے معاملات میں گہری چال ہے، کیونکہ جو بندہ وضوکرنے کے لیے پانی کا نل کھولے کھڑا ہے اور اپنے وضو والے اعضا دھو رہا ہے تو کیا ابھی تک اس کی نیت نہیں ہوئی؟ یہ صرف فاسد خیالات اور فضول وسوسے ہیں جو شیطان کی طرف سے اس کے دل گھس آئے ہیں۔ ایک دانا آدمی فوراً انہیں پہچان لیتا ہے کہ یہ شیطان کے وسوسے ہیں اور پھر فوراً ان سے رُک جاتا ہے۔ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہاہے جو ایک عالم و فاضل بھائی نے سنایا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ یا شیخ! مجھے غسل جنابت لاحق ہوا تو میں دریائے دجلہ پر چلا گیا۔ وہاں میں نے اچھی طرح غسل کیا اور باہر چلا آیا، لیکن پھر میرے دل میں وہم پیدا ہو گیا کہ میں ابھی پاک نہیں ہوا۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ تو نماز مت پڑھا کر۔ اس آدمی نے پوچھا: یا شیخ ! یہ کیوں؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter