ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَاتِی الشَّیْطَانُ أَحَدُکُمْ فَیَقُوْلُ: مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ مَنْ خَلَقَ کَذَا؟ حَتّٰی یَقُوْلَ: مَنْ خَلَقَ اللّٰہَ؟ فَاِذَا بَلَغَہٗ فَلْیَسْتَعِذْ بِاللّٰہِ وَلْیَنْتَہِ۔))
’’تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟ جب معاملہ یہاں تک پیش آجائے تو اسے اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور ان خیالات سے رُک جانا چاہیے۔‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معاملات میں اپنی اُمت کی بھر پور راہنمائی فرمائی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فاسد خیالات اور وسوسوں سے بچنے کے بھی طریقے بیان کیے ہیں۔ ان کو یہاں بیان کرتے ہوئے میں ’’ علاج‘‘ کا لفظ استعمال کروں گا:
پہلا علاج : اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا اور کثرت سے استغفار کرنا
یہی وہ پناہ گاہ اور بچاؤ کی جگہ ہے جہاں انسان شیطان کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ چنانچہ ایک سچے مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسا اور توکل کرے تاکہ شیطان کے اس وار سے محفوظ رہ سکے۔
دوسرا علاج: فاسد خیالات اور وسوسوں سے رُک جانا
فاسد خیالات اور وسوسوں کے بارے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے سے رُک جانا چاہیے اور ان سے اعراض کرتے ہوئے منہ موڑکر اپنے روز مرہ کے معمولات کو جاری رکھنا چاہیے۔ اگر آپ ان خیالات اور وسوسوں کے حامل شخص سے پوچھیں کہ جو خیالات اور وسوسے اس کے دل و دماغ میں پیدا ہوتے ہیں ، کیا وہ ان پر اعتقاد اور یقین بھی رکھتا ہے؟ تو یقینا اس کا جواب یہی ہو گا ، اللہ تعالیٰ مجھے اس بات سے بچائے کہ میں ان خیالات پر اعتقاد اور یقین رکھوں۔ میں تو اللہ کے فضل سے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے نماز، روزہ، صدقہ
|