کیا کرتے اور جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ اٹھاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعراض فرماتے۔مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ نہ کوئی مجھ سے بات کرتا نہ کوئی میرے سلام کا جواب دیتا۔ ایک روز میں نہایت رنج و الم میں سے مدینہ سے باہر نکلا ابوقتادہ جو میرا چچیرا بھائی تھا اور ہم دونوں میں نہایت محبت تھی۔ سامنے اس کا باغ تھا وہ باغ میں عمارت بنوا رہا تھا میں اس کے پاس چلا گیا اسے سلام کیا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا اور منہ پھیر کر کھڑا ہوگیا میں نے کہا ابوقتادہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں اور نفاق اور شرک کا میرے دل پر اثر نہیں۔ جب میں نے تین بار اسی بات کو دہرایا تو اس نے صرف اسی قدر جواب دیا کہ اللہ اور رسول کو ہی خوب معلوم ہے۔ مجھے بہت رقت ہوئی میں خوب رویا اور میں شہر کو لوٹ آیا تو مجھے ایک عیسائی ملا یہ مدینہ میں مجھے تلاش کر رہا تھا۔ اس کے پاس بادشاہ غسان کا ایک خط میرے نام تھا، خط میں لکھا تھا۔ ہم نے سنا ہے کہ تمہارا آقا تم سے ناراض ہوگیا ہے۔ تم کو اپنے سامنے سے نکال دیا ہے اور باقی سب لوگ بھی تم پر جور و جفا کر رہے ہیں۔ ہم کو تمہارے درجہ و منزلت کا بخوبی حال معلوم ہے کہ تم ایسے نہیں ہو کہ کوئی تم سے ذرا بھی بے التفائی کرے یا تمہاری عزت کے خلاف تم سے کوئی سلوک کرے۔ اب تم یہ خط پڑھتے ہی میرے پاس چلے آؤ اور آکر دیکھ لو کہ میں تمہارے اعزاز و اکرام میں کیا کچھ کرسکتا ہوں۔
خط پڑھتے ہی میں نے کہا کہ ایک اور مجھ پر مصیبت آن پڑی۔ اس سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوسکتی ہے کہ آج ایک عیسائی مجھ پر اور میرے دین پر قابو پانے کی آرزو کر رہا ہے اور مجھے کفر کی دعوت دیتا ہے، اس خیال سے میرا رنج و اند وہ چند در چند بڑھ گیا ہے۔ خط کو قاصد کے سامنے ہی میں نے آگ میں ڈال دیا اور کہہ دیا جاؤ کہہ دینا کہ آپ کی عنایات و التفات سے مجھے اپنے آقا کی بے التفائی لاکھ درجے بہتر ہے میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہا کرو۔ میں نے پوچھا کیا طلاق کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: نہیں صرف علیحدہ رہنے کا فرمایا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ہلال اور مرارہ کے پاس بھی یہی حکم پہنچا ہے ہلال کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ
|