Maktaba Wahhabi

504 - 532
میں)اس دعا کی قبولیت کی خواہش نہ کرے[1]۔ (25/6)گناہ خود فراموشی کا باعث ہے نیزاللہ عزوجل کے اپنے بندے کو بھلادینے کا سبب ہے‘ اور جب اللہ تعالیٰ بندے کو بھلا دیتا ہے تو یہ ہلاکت کی وہ منزل ہوتی ہے جس سے نجات کی کوئی امید نہیں،اللہ عزوجل کاارشاد ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۚ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ(١٨)وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللّٰهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(١٩)[2]۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل(قیامت)کے واسطے اس نے کیا(ذخیرہ)بھیجا ہے‘ اور ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہو‘ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاناجنھوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا‘ اور ایسے ہی لوگ فاسق ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو اس کا تقویٰ ترک کردیتا ہے وہ اس کا مواخذہ اس طرح کرتاہے کہ اسے اس کی ذات یعنی اس کی مصلحتوں ‘ اور اسے اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی چیزوں نیز ابدی زندگی‘ اس کی لذت کا کمال‘ فرح و سروراور اس کی نعمت کو واجب کرنے والی چیزوں سے غافل کردیتا ہے،اسے اللہ تعالیٰ اپنی عظمت ‘ خوف اور اپنے حکم کی بجاآوری سے غافل ہونے کی جزا کے طورپر ان چیزوں سے غافل کرتا ہے،چنانچہ آپ گنہ گار کو پائیں گے کہ وہ اپنی ذاتی مصلحتوں کو ضائع و پامال کرنے والا ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اپنے ذکر سے غافل کردیتا ہے‘ وہ اپنی خواہشات نفسانی کا اسیر ہوجاتا ہے‘ اس کی دنیوی و اخروی مصلحتیں ضائع ہو جاتی ہیں اور وہ اپنی ابدی سعادت کے حصول میں کوتاہی ہی کرتا ہے،اور معمولی لذت کے عوض اسے تبدیل کردیتا ہے وہ محض ایک جلد فنا ہونے والا ساز و سامان ہوتا ہے جس میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی،جیسا کہ کہا گیا ہے:
Flag Counter