Maktaba Wahhabi

491 - 532
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: رأیت الذنـوب تمیت الـقلـوب وقـــد یـورث الـذل إدمـانـھـا وترک الذنوب حیـــاۃ القــلوب وخـیـر لنـفسـک عـصـیـانـھـا وھـــل أفسد الدین إلا المــلوک وأحـبـار سـوء ورھبــانھا [1] میں نے دیکھا ہے کہ گناہ دلوں کو مردہ کردیتے ہیں اور یقینا گناہ پر گناہ کرنا ذلت و رسوائی کا سبب ہوتا ہے‘ اور گناہوں کو چھوڑدینا دلوں کی زندگی ہے اور تمہاری اپنی ذات کے حق میں گناہوں کی نافرمانی(کاترک کردینا)ہی بہتر ہے،اور دین کو شاہان‘ پادری حضرات اور علماء سوء ہی خراب کرتے ہیں۔ (10)گناہ عقل کو خراب کردیتے ہیں اور اس میں اثرانداز ہوتے ہیں‘ کیونکہ عقل میں ایک روشنی ہوتی ہے اور گناہ اس روشنی کو گل کردیتا ہے،اور جب عقل کی روشنی گل ہوجاتی ہے تو وہ کمزور اور ناقص ہوجاتی ہے اور جاتی رہتی ہے‘ اور کوئی شخص اس حد تک اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا کہ اس کی عقل ضائع ہوجائے کیونکہ قرآن‘ ایمان‘ موت اور جہنم کے نصیحت گر اسے ضائع ہونے سے روکتے ہیں،البتہ(اتنا ضرور ہے کہ)معصیت کے سبب دنیا و آخرت کی فوت ہونے والی بھلائی گناہ کے سبب حاصل ہونے والی لذت و سرور سے کئی گنا زیادہ ہے،تو کیا کوئی عقل سلیم سے بہرہ مند شخص ان تمام خرابیوں کے باوجود گناہوں کو معمولی اور آسان سمجھنے کا اقدام کرسکتا ہے؟؟ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ معصیت اگر عقل کو خراب نہیں کرتی تو اس کے کمال میں نقص ضرور پیدا کرتی ہے،چنانچہ آپ ایسے دو عقلمندوں کو جن میں سے ایک اللہ کا فرمانبردار اور دوسرا اللہ کا نافرمان ہو‘ نہیں پائیں گے ‘ مگر ان میں سے فرمانبردار کی عقل نافرمان کی عقل سے کامل و اکمل‘ اس کی فکر سے درست تر‘ اس کی رائے سے صحیح تر ہوگی اور صوابدید اس کے حق میں ہوگی[2]۔ (11)گناہ دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں،چنانچہ جب گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں تو گنہ گار کے دل پر مہرلگادیتے ہیں اور وہ غافلوں میں سے ہوجاتا ہے،کیونکہ دل گناہ سے زنگ آلود ہوجاتا ہے،اور جب گناہ زیادہ ہوجاتا ہے تو زنگ غالب ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر زنگ سے گدلا ہوجاتا ہے‘پھرزنگ بہت ہی زیادہ ہوجاتا
Flag Counter