کرتے ہیں‘ اور گناہوں کا اعلان یہ بھی ہے کہ آدمی رات میں کوئی(برا)عمل کرے پھر صبح اٹھ کر’جبکہ اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تھی‘ کہتا پھرے:کہ اے فلاں میں نے کل رات ایسا ایسا کیا،جبکہ وہ اس حالت میں سویا تھاکہ اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی اور صبح اٹھ کر اس نے اپنی ذات سے اللہ کا پردہ فاش کردیا۔
(8)گناہ کے عادی لوگوں پر گناہ کا کمتر ہوجانا:چنانچہ بندہ مسلسل گناہ کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل و نگاہ میں وہ گناہ کمتر اور حقیر ہوجاتا ہے ‘ درحقیقت یہ ہلاکت وبربادی کی علامت ہے‘ کیونکہ گناہ بندے کے دل و نگاہ میں جس قدر حقیر اور معمولی ہوگا اسی قدر اللہ کے یہاں بڑا اور عظیم تر ہوگا،اسی لئے عبد اللہ بن مسعود ر ضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
’’إن المؤمن یری ذنوبہ کأنہ قاعد تحت جبل یخاف أن یقع علیہ،وإن الفاجر یری ذنوبہ کذباب مر علی أنفہ فقال بہ ھکذا‘‘[1]۔
مومن اپنے گناہوں کو اس طرح محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ ایک پہاڑ تلے بیٹھا ہو اور اسے خوف ہو کہ کہیں وہ اس پر گر نہ پڑے،اور فاسق و فاجر شخص اپنے گناہوں کو اس طرح محسوس کرتا ہے گویا ایک مکھی ہو جو اس کی ناک پر سے گزرے تو وہ اسے یوں ہانک دے۔
چنانچہ مومن کے دل میں چونکہ نور ہوتا ہے اس لئے وہ بخشش پر اعتماد کرکے نہیں بیٹھتا بلکہ چھوٹے گناہ پر یقین کرتا ہے اورچھوٹے سے گناہ کو پہاڑ سمجھ کر اس کی ہلاکت انگیزی سے ڈرتا ہے ‘ اور فاجر شخص کو چونکہ اللہ کی بابت بہت معمولی معرفت ہوتی ہے اس لئے وہ اللہ سے بہت کم ڈرتا ہے اور گناہ کومعمولی اور حقیر سمجھتاہے[2]۔
(9)گناہ و معصیت ذلت وخواری کا سبب ہے کیونکہ ہر طرح کی عزت اللہ کی اطاعت میں اور ہر طرح کی ذلت و رسوائی اللہ کی نافرمانی میں ہے،اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا﴾[3]۔
|