ارشاد ہے:
﴿كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ(١٤)كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ(١٥)﴾[1]۔
ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پران کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔ہرگز نہیں یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھ دیئے جائیں گے۔
چنانچہ گناہ ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان اور ان کے اور ان کے رب وخالق سبحانہ وتعالیٰ کے درمیان حجاب بن جائیں گے[2]۔
(7)گناہ ‘ نافرمانی و معصیت سے الفت و انسیت پیدا کرتا ہے‘ چنانچہ دل سے گناہ کی قباحت و شناعت جاتی رہتی ہے اور اس کی عادت ایسی بن جاتی ہے کہ نہ تو لوگوں کا اسے دیکھنا برا لگتا ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں گفتگو کرنا‘ یہ اہل فسق(بدکاروگنہ گار)کے نزدیک گراوٹ و انحطاط کی حد اور لذت و چاشنی کی انتہاء ہے‘ یہاں تک کہ ان کا کوئی شخص معصیت پر فخر کرنے لگتا ہے اور ایسے لوگوں کو اپنا کالا کردار بیان کرتا ہے جن کی لاعلمی کا اسے علم ہوتا ہے ‘ اس قسم کے لوگوں کی معافی نہیں ہوسکتی،ان کے لئے توبہ کی راہ مسدود اور عام طور پر توبہ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں،چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’کل أمتي معافی إلا المجاھرین،وإن من المجاھرۃ أن یعمل الرجل باللیل عملاً ثم یصبح وقد سترہ اللّٰه فیقول:یافلان عملت البارحۃ کذا وکذا،وقد بات یسترہ ربہ ویصبح یکشف ستر اللّٰه عنہ‘‘[3]۔
میری امت کے سارے لوگ معاف ہیں سوائے ان کے جو گناہوں کے ارتکاب کے بعد ان کا اعلان
|